گیا: ضلع گیا میں واقع اقلیتی ادارہ ' مرزاغالب کالج ' آپسی انتشار اور برسر اقتدار ہونے کو لیکر سرخیوں میں ہے۔ کالج کی گورننگ باڈی نے اپنے ایک ممبر خورشید احمد خان کو کمیٹی سے باہر کردیا ہے، خورشید احمد خان ایجوکیشنسٹ کے عہدے پر بحال تھے انہیں سنہ 2020 میں بحال کیا گیا تھا۔ کمیٹی کے سکریٹری شبیع عارفین شمسی نے بتایا کہ خورشید احمد خان کو برخاست کرنے کا فیصلہ کمیٹی کا ہے اور ان پر مختلف چارجز تھے حالانکہ ان کی برخاستگی کے بعد کالج کی گورننگ باڈی دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے اور گورننگ باڈی کا مخالف گروپ بھی متحرک ہوگیا ہے، دونوں خیمے اپنے تسلط کو لیکر توڑ جوڑ میں لگے ہیں۔ یہاں تک کہ مگدھ یونیورسیٹی تک برخاستگی کا معاملہ پہنچ چکا ہے۔ Educationists of Mirza Ghalib College in Gaya were Dismissed
یہ بھی پڑھیں:
خورشید احمد خان کا کہنا ہے چونکہ گورننگ باڈی اور بحالی کے تعلق سے ایک معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور موجودہ سکریٹری شبیع عارفین شمسی بھی کورٹ کی ہدایت پر دوبارہ بحال ہوئے ہیں. تو اس صورت میں گورننگ باڈی کا کسی بھی ممبر کو برخاست کرنا درست نہیں ہے۔ دراصل گزشتہ دوماہ قبل سکریٹری شبیع عارفین شمسی کو گورننگ باڈی نے اسسٹنٹ پروفیسر کی بحالی کے معاملے پر ہائی کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں ہٹادیا تھا۔ بعد میں شبیع عارفین شمسی نے عدالت میں عرضی دائر کی۔ جس کے بعد عدالت نے انہیں ستائیس اگست کو دوبارہ سکریٹری کے عہدے پر بحال کردیا۔
اس دوران گورننگ باڈی نے تین ممبروں کو بھی ہٹادیا تھا تاہم سکریٹری کے فیصلے میں ہائی کورٹ نے جو ہدایت دی تھی اس کی روشنی میں سبھی ممبران دوبارہ بحال ہوگئے۔ اب جب کہ ایجوکیشنسٹ کو ہٹایا گیا ہے تو ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ ادھر ایجوکیشنسٹ کو ہٹائے جانے پر گورننگ باڈی کا مخالف گروپ بھی متحرک ہوچکا ہے۔ واضح ہو کہ مرزا غالب کالج اقلیتی لسانی کالج ہے۔ اس کا اپنا بائی لاز ہے جس کے تحت یہ خود مختار ادارہ ہے، کالج کو چلانے کے لیے مرزا غالب کالج کے کونسلر سات ممبران کا انتخاب کرتے ہیں اس کے علاوہ کمیٹی میں پرنسپل، دو ٹی آر اور ایک ایجوکیشنسٹ ہوتا ہے۔ یعنی کل گیارہ رکنی کمیٹی ہوتی ہے۔ کسی ممبر کو ہٹانے کے لیے گیارہ میں سے اکثریتی ارکان یا پھر کم از کم چھ ارکان کی رضامندی ہونی ضروری ہے۔