غریبوں پر زکوٰۃ فرض نہیں کی گئی ہے۔ زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے مال سے زکوٰۃ نکالو اور اسے پاک کرو۔
شرعی اصطلاح میں مال کے اس حصہ کو زکوٰۃ کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فقیروں، محتاجوں غربا و مساکین کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے۔ قرآن کریم کی مختلف آیات اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔
مفتی اطہر القاسمی نے کہا کہ ہمارے پاس جو مال ہے دراصل وہ اللہ کی امانت ہے اور اس نے ہمیں جہاں یہ اختیار دیا ہے کہ ہم اس کے مال کو خرچ کریں وہیں۔ اس نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ نصاب کے مطابق جو مال سال بھر کسی پاس جمع ہے اس کا ڈھائی فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔
مفتی اطہر القاسمی نے کہا کہ جس شخص کے پاس 88 گرام سونا یا 612 گرام چاندی یا 612 گرام چاندی کی قیمت کے برابر نقد روپے یا سامان تجارت وغیرہ ہے اور اس کو پاس رکھے ہوئے ایک سال کا وقت گزر گیا تو اسے صاحب نصاب کہا جائے گا اور اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض قرار دی جائے گی۔
مگر آج جو صاحب نصاب ہیں وہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر سے کام لیتے ہیں۔ یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اس کے لیے سخت وعیدیں آئی ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن درد ناک عذاب ہوگا جب سونے چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اس سے آدمی کی پیشانی، اس کے پہلو اور اس کی پشت کو داغا جائے گا اور اس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ وہ خزانہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ لہٰذا زکوٰۃ کی ادائیگی میں ذرہ برابر بھی غفلت نہ برتی جائے۔