ETV Bharat / state

دھرو کُنڈو، بھارت کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والا گُمنام مجاہد

سنہ 1942 میں مہاتما گاندھی کی بھارت چھوڑو تحریک کے دوران سیمانچل کی سرزمین سے ایک بہادر لڑکا نکلا، جس نے برطانوی راج کی جڑیں پوری طرح ہلاکر رکھ دی تھی۔

author img

By

Published : Sep 26, 2021, 12:57 PM IST

Dhruv Kundu
Dhruv Kundu

اپنی بہادری سے انگریزوں کی ناک میں دم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اُس دور کے عظیم مجاہد آزادی اور پیشے سے مشہور ڈاکٹر کشوری لال کنڈو کے چھوٹے بیٹے دھرو کنڈو (Dhruv Kundu) تھے۔ دھرو کنڈو بچپن سے ہی بہت بہادر تھے۔ 1942 میں وہ مہاتما گاندھی کی 'بھارت چھوڑو تحریک' میں کود پڑے۔

بھارت کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والا گُمنام مجاہد

11 اگست 1942 کو انقلابیوں نے رجسٹری آفس میں آتشزنی کرکے تمام کاغذات کو خاکستر کردیا۔ 13 اگست 1942 کو کٹیہار شہر کے سب رجسٹرار دفتر کو بھی تباہ کردیا گیا تھا۔ منصف کورٹ سمیت سرکاری دفاتر سے برطانوی حکومت کے پرچم اکھاڑ پھینکے اور قومی پرچم ترنگا لہرایا گیا۔

منصف کورٹ پر ترنگا لہرانے کے دوران دھرو کُنڈو کو آگے بڑھتے دیکھ انگریز پریشان ہوگئے اور ان پر فائرنگ کردی جس میں سے ایک گولی ان کی ران میں لگ گئی تھی۔ انہیں علاج کے لیے پورنیہ صدر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن 15 اگست 1942 کو انہوں نے 13 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ دھرو کنڈو سب سے کم عمر مجاہد آزادی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جان قربان کی۔

دھرو کنڈو میموریل کنسٹرکشن موومنٹ کے سربراہ گوتم ورما نے کہا کہ دھرو کنڈو ایک انقلابی لڑکا تھا۔ ملک کے لیے جو جذبات ہونے چاہئیں، جو جنون اور لگن ہونی چاہئے وہ اس لڑکے میں دِکھی۔ انہوں نے دکھادیا کہ عمر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ انسان میں قابلیت، جذبہ اور ملک کے تئیں محبت ہونی چاہئے۔

  • قومی پرچم لہرانے کے لئے بڑھتے رہے قدم

ادبی اور سماجی کارکن بھولا ناتھ آلوک کا کہنا ہے کہ ایک 13 سالہ بچہ اسکول جارہا تھا لیکن سب ڈویژن آفس، کٹیہار کے دفتر میں ترنگا جھنڈا لہرانے کا خیال اس کے ذہن میں چل رہا تھا۔ گھر سے ماں کو بتاکر نکلا کہ پڑھنے جارہا ہوں، راستے میں کسی ساتھی کو ساتھ لیکر گیا اور قومی پرچم کو لے کر آگے بڑھتا گیا۔

اس وقت کٹیہار کے ایس ڈی او مکھرجی تھے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ لوٹ جاؤ لیکن وہ لڑکا آگے بڑھتا گیا۔ مکھرجی انتباہ دیتے رہے لیکن وہ مانا نہیں۔ جب وہ قریب آیا تو مکھرجی کا پستول گرجا اور وہ لڑکا وہیں شہید ہوگیا۔

سینیئر ایڈووکیٹ اور سماجی کارکن گوتم ورما کا کہنا ہے کہ جو تحریک 1942 میں پھوٹ پڑی اور وہ چھوٹا بچہ جس کے پاس جو جذبہ ہونا چاہئے، جو جنون ہونا چاہئے، ملک کو آزاد کرانے کے لئے اس کا خون کھولا، اس نے کئی لوگوں کو متاثر کیا۔ ملک میں سب سے کم عمر میں اس لڑکے نے اپنی شہادت دینے کا کام کیا۔

تھیٹر آرٹسٹ شیواجی کا کہنا ہے کہ دھرو کنڈو ہمارے لیے بھگت سنگھ کی طرح ہیں۔ جس طرح بھگت سنگھ نے ملک کے لیے اپنی جان قربان کی تھی، دھرو کنڈو ہمارے لیے بھگت سنگھ سے کم نہیں ہے۔ ہم نوجوانوں کے لیے وہ تحریک کا ذریعہ ہیں۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ملک کو ایسے بہادر بیٹے پر فخر ہے جس نے کم عمر میں ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ بھارت کی آزادی کے 75ویں سال پر 'ای ٹی وی بھارت' شہید دھرو کنڈو کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔

اپنی بہادری سے انگریزوں کی ناک میں دم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اُس دور کے عظیم مجاہد آزادی اور پیشے سے مشہور ڈاکٹر کشوری لال کنڈو کے چھوٹے بیٹے دھرو کنڈو (Dhruv Kundu) تھے۔ دھرو کنڈو بچپن سے ہی بہت بہادر تھے۔ 1942 میں وہ مہاتما گاندھی کی 'بھارت چھوڑو تحریک' میں کود پڑے۔

بھارت کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والا گُمنام مجاہد

11 اگست 1942 کو انقلابیوں نے رجسٹری آفس میں آتشزنی کرکے تمام کاغذات کو خاکستر کردیا۔ 13 اگست 1942 کو کٹیہار شہر کے سب رجسٹرار دفتر کو بھی تباہ کردیا گیا تھا۔ منصف کورٹ سمیت سرکاری دفاتر سے برطانوی حکومت کے پرچم اکھاڑ پھینکے اور قومی پرچم ترنگا لہرایا گیا۔

منصف کورٹ پر ترنگا لہرانے کے دوران دھرو کُنڈو کو آگے بڑھتے دیکھ انگریز پریشان ہوگئے اور ان پر فائرنگ کردی جس میں سے ایک گولی ان کی ران میں لگ گئی تھی۔ انہیں علاج کے لیے پورنیہ صدر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن 15 اگست 1942 کو انہوں نے 13 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ دھرو کنڈو سب سے کم عمر مجاہد آزادی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جان قربان کی۔

دھرو کنڈو میموریل کنسٹرکشن موومنٹ کے سربراہ گوتم ورما نے کہا کہ دھرو کنڈو ایک انقلابی لڑکا تھا۔ ملک کے لیے جو جذبات ہونے چاہئیں، جو جنون اور لگن ہونی چاہئے وہ اس لڑکے میں دِکھی۔ انہوں نے دکھادیا کہ عمر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ انسان میں قابلیت، جذبہ اور ملک کے تئیں محبت ہونی چاہئے۔

  • قومی پرچم لہرانے کے لئے بڑھتے رہے قدم

ادبی اور سماجی کارکن بھولا ناتھ آلوک کا کہنا ہے کہ ایک 13 سالہ بچہ اسکول جارہا تھا لیکن سب ڈویژن آفس، کٹیہار کے دفتر میں ترنگا جھنڈا لہرانے کا خیال اس کے ذہن میں چل رہا تھا۔ گھر سے ماں کو بتاکر نکلا کہ پڑھنے جارہا ہوں، راستے میں کسی ساتھی کو ساتھ لیکر گیا اور قومی پرچم کو لے کر آگے بڑھتا گیا۔

اس وقت کٹیہار کے ایس ڈی او مکھرجی تھے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ لوٹ جاؤ لیکن وہ لڑکا آگے بڑھتا گیا۔ مکھرجی انتباہ دیتے رہے لیکن وہ مانا نہیں۔ جب وہ قریب آیا تو مکھرجی کا پستول گرجا اور وہ لڑکا وہیں شہید ہوگیا۔

سینیئر ایڈووکیٹ اور سماجی کارکن گوتم ورما کا کہنا ہے کہ جو تحریک 1942 میں پھوٹ پڑی اور وہ چھوٹا بچہ جس کے پاس جو جذبہ ہونا چاہئے، جو جنون ہونا چاہئے، ملک کو آزاد کرانے کے لئے اس کا خون کھولا، اس نے کئی لوگوں کو متاثر کیا۔ ملک میں سب سے کم عمر میں اس لڑکے نے اپنی شہادت دینے کا کام کیا۔

تھیٹر آرٹسٹ شیواجی کا کہنا ہے کہ دھرو کنڈو ہمارے لیے بھگت سنگھ کی طرح ہیں۔ جس طرح بھگت سنگھ نے ملک کے لیے اپنی جان قربان کی تھی، دھرو کنڈو ہمارے لیے بھگت سنگھ سے کم نہیں ہے۔ ہم نوجوانوں کے لیے وہ تحریک کا ذریعہ ہیں۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ملک کو ایسے بہادر بیٹے پر فخر ہے جس نے کم عمر میں ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ بھارت کی آزادی کے 75ویں سال پر 'ای ٹی وی بھارت' شہید دھرو کنڈو کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.