گیا: بدلتے زمانے کے ساتھ کھان پان کی اشیاء کو تیار کرنے کے طور طریقے بھی بدلے ہیں کیونکہ نئی تکنیک اور جدید مشینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے، جس سے نہ صرف وقت ضائع ہونے سے بچتاہے بلکہ پروڈکشن اور کوالٹی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مگر جلد بازی کے چکر میں مضر اثرات کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے۔ اس برعکس ضلع گیا میں صدیوں پرانی روایت کو پھر سے رائج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ضلع میں بند ہوئی پرانی تکنیک کے تحت کولہو سے نکالے جانے والے تیل کی روایت کو پھر سے شروع کیا گیا ہے۔ البتہ کولہو میں بیل کی جگہ الیکٹرک پاور موٹر کا استعمال کیا گیا ہے لیکن اس میں بھی تیل کو پیسنے کے لیے لکڑی کا ہی استعمال کیا گیا ہے۔
ریاست بہار کے ضلع گیا میں سرسوں، ناریل، بادام مونگ پھلی اور تلوں کا روغن تیار کرنے کے سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو ایک خاتون 'وندنا کماری' نے پھر سے آباد کیا ہے۔ لکڑ گھانی یعنی کہ کولہو کے طرز پر لکڑی سے پیس کر روغن نکالنے کی شروعات ہوئی ہے۔ البتہ اس روایتی طریقے میں بھی تبدیلی ہے کیونکہ پہلے کولہو سے پیر 'پیس' کر روغن نکالنے کی روایت تھی اور اس کولہو کو چلانے کے لیے بیل 'جانور' کا استعمال ہوتا تھا۔
لکڑی اور لوہے کے موٹے چدرے کا دو رولر کولہو میں ہوتا تھا جسے کھیچنے اور گھومانے کے لیے ایک موٹی اور لمبی لکڑی سے مویشی جو عام طور پر بیل ہی ہوا کرتا تھا اس سے جوڑ کر چلایا جاتا تھا تاکہ سرسوں یا گنے کو پیس کر اس کا رس نکالا جائے، تاہم گیا کی وندنا کماری نے نئی تکنیک سے کولہو کی طرز پر تیل نکالنے کا عمل شروع کیا ہے۔ البتہ یہ کہ اس کولہو میں بیل کی جگہ پر الیکٹرک موٹر لگا ہوا ہے۔
لکڑی کے اسٹیکچر والی مشین میں انتہائی کم درجہ حرارت میں سرسوں ناریل بادام مونگ پھلی اور تلوں کو پیسا جاتا ہے اور اس مشین کا فنکشن کولہو کے بیل کی طرح ہی سست ہے یعنی کہ مشین آہستہ آہستہ پیس کر تیل نکالتی ہے جس سے تیل کی کوائلٹی بہت ہی ہیلدی ہوجاتی ہے۔ مشین کے آہستہ چلنے کی وجہ سے دس کلو سرسوں کا تیل نکالنے میں قریب دو گھنٹے کا وقت لگتا ہے، اگر یہی مشین کا درجہ حرارت زیادہ ہو تو بہت ہی کم وقتوں میں تیل نکالا جاسکتا ہے لیکن طبی طور پر جتنا زیادہ درجہ حرارت ہوگا تیل کی ہیلدی صلاحیت اتنی ہی کم ہوگی۔
مزید پڑھیں: فلسطین کے حمایتی ملک کی خارجہ پالیسیوں کے خلاف ہیں، وجے کمار سنہا
گیا ضلع میں پہلی بار لکڑ گھانی مل شروع ہوئی ہے، ای ٹی وی بھارت نے اس مورثی طریقے سے نکالے جانے والے تیل اور پورے پروسس پر وندنا کماری سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے دوران گفتگو کہاکہ تیل کی تیاری کی صنعت میں تبدیلیوں اور مارکیٹ میں نامور برانڈوں کے تیل رائج ہونے کے باوجود انکے ذریعے روایتی طریقے سے تیار کیا جانے والا تیل اہمیت کا حامل ہے اور ضلع گیا کے علاوہ باہر کے لوگ اسے ترجیح دے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں براہ راست سپلائی کے بجائے انکے ذریعے تیار کیا ہوا تیل آرڈر پر کھپت ہے۔ عام تیل کی بنسبت یہ کچھ حد تک معمولی اضافی رقم پر فروخت ہو رہاہے کیونکہ اس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہیں ہے، تیل کے خالص ہونے اور ہیلدی صلاحیت ہونے کے سبب اسکو تیار کرنے کے اخرجات بھی زیادہ ہیں۔
سسر کی چاہت کو کیا ہے پورا
آج سے 30 برس قبل کولہو میں پس کر تیل نکالنے کا عمل عام تھا تاہم یہ کام گاوں دیہات میں زیادہ تھے لیکن نئی تکنیک کی مشینوں کی آمد سے کولہو سے تیل نکالنے کی روایت بند ہوگئی ہے، اب تو ضلع کے کسی علاقے میں کولہو کا استعمال نہیں ہے لیکن جنہوں نے کولہو کے پسے ہوئے تیل کا استعمال کیا ہے وہ آج بھی اس کے شوقین اور اسکے فائدے سے متاثر ہیں۔ وندنا کماری کے سسر بھی انہی میں سے ایک ہیں جو پیشہ سے سرکاری ٹیچر تھے لیکن وہ روایتی اور کیمیکل فری خورد و نوش کی اشیاء کے استعمال کرنے کے عادی اور شوقین تھے، تاہم خالص اور صاف ستھرے طور پر روایتی طریقہ 'کولہو' سے پسا ہوا تیل کا استعمال نہیں کرنے پر مایوس ہوتے تھے۔
انکی یہ مایوسی بہو وندنا کماری کے لیے تکلیف دہ تھی، چونکہ وندنا کماری کا تعلق گاؤں سے تھا اور وہ بھی کاشت کار کی بیٹی تھیں تو انہیں کولہو سے تیل نکالنے کے طور طریقے معلوم تھے، لیکن کولہو کی بند روایت کو وہ شروع نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ اب نا تو اتنا کسی کے پاس وقت ہے اور نا ہی مویشی کا اس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اسکے متبادل پر تحقیق کی۔
وندنا بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے تحقیق کی تو پتہ چلاکہ کولہو کے طرز پر الیکٹرک مشینیں ہیں جنکے اسٹکچر کا بڑا اور خاص حصہ جس سے تیل پسا جاتا ہے وہ لکڑی کا حصہ ہے اور پورا عمل کولہو کی طرح ہی ہے، جسکے بعد انہوں نے اس کام کو شروع کرنے کا ارادہ کیا اور ان کے اس کام میں انکے شوہر کا بھی بھر پور تعاون ملا، وندنا کماری نے مختلف تلہن کا تیل نکالنے کے لیے تین مشینیں لگائی ہیں جنکا الگ الگ استعمال ہے۔ انہوں نے کہاکہ انہیں یہ آئیڈیا اور شروعات سسر کی وجہ سے ملی ہے۔
محکمہ صنعت سے مل رہی ہے مدد
وندنا کماری نے بتایاکہ لکڑ گھانی یعنی کہ کولہو مل لگانے کے لیے موٹی رقم کی ضرورت ہوتی ہے، ایک مشین 5 لاکھ سے زیادہ کی قیمت کی ہے، اس وجہ سے انہوں نے ذاتی رقم کے علاوہ محکمہ صنعت کے 'مہیلا ادھمی منصوبہ' سے استعفادہ کر اس مل کو شروع کیا ہے۔ انکے مل میں سرسوں بادام ناریل مونگ پھلی اور تل کا تیل نکالا جاتا ہے۔ انکی مل کا تیل آرڈر پر تیار ہوتا ہے لیکن اب ڈسٹرک مجسٹریٹ ڈاکٹر تیاگ راجن کی ہدایت پر ضلع محکمہ صنعت انکی مدد کے لیے آگے آیا ہے۔
محکمہ صنعت کی جانب سے انہیں مارکیٹنگ کے لیے سرکاری میلہ اور بازاروں میں اسٹال دیا جا رہاہے تاکہ وہ اپنے پروڈکٹ کی تشہیر کرسکیں جس سے انکی کھپت زیادہ ہو اور لوگ پھر سے ملاوٹ بغیر خالص تیل کا استعمال کرسکیں اور اسکی وجہ سے صحت پر مفید اثر ہو۔
پیکجنگ پر بھی ہے خاص دھیان
وندنا کماری کا کہنا ہے کہ منظم طریقے سے پیشکش آج وقت کی ضرورت ہے، وہ اس کو بخوبی سمجھتی ہیں، اس لیے انہوں نے پیکجنگ پر خاص توجہ دی ہے اور اس کے لیے انہوں چھوٹے وبڑے بوتل میں اچھے ڈھنگ سے پیکنگ بھی کراتی ہیں، انہوں نے بوتل پر 'لکڑ گھانی سرسوں کولہو تیل' لکھوایا ہے اور ساتھ ہی خوبصورت ڈیزائن کا اسٹیکر بھی لگوایا ہے۔ اسی طرح سبھی طرح کے تیل کی پیکجنگ کراتی ہیں، جس میں فوڈ رجسٹرڈ نمبر سے لیکر کئی طرح کی جانکاری بھی دی گئی ہے۔
سبھی طبقے کے ہیں کسٹمرز
وندنا کماری بتاتی ہیں انکے یہاں بلا تفریق سبھی برادری مذہب اور سبھی طبقے کے کسٹمرز ہیں جو صرف اچھی کوائلٹی کے لیے انکے ساتھ جڑے ہیں۔ انکا سبھی پروڈکٹ این اے بی ایل سے ٹیسٹ کیا ہوا پروڈکٹ ہے، ساتھ ہی فوڈ سرٹیفکٹ بھی دستیاب ہے۔ انکے کسٹمرز میں ایک بڑی تعداد ڈاکٹروں کی بھی ہے، ماہانہ قریب 150 کلو سے 200 کلو سرسوں تیل کی کھپت ہے جبکہ دیگر تیل جیسے بادام ناریل مونگ پھلی اور تل وغیرہ کے تیل کی 30 سے 50 لیٹر تیل کی کھپت ہے۔
سرسوں کا تیل دو مختلف مشینوں میں پسے ہوئے تیل کی الگ الگ قیمت ہے جس میں ایک جو لکڑی سے پسا ہوا ہے تیل ہے وہ فی کلو 390 روپے ہے جسے 350 روپے تک تھوک قیمت میں دیا جاتا ہے جبکہ دوسری مشین کا فی کلو 220 روپے ہے۔ اسی طرح کو کونٹ تیل فی لیٹر 750، المنڈ 'بادام' تیل فی لیٹر 4200، تل کا فی لیٹر تیل 715 روپے، فلکس سیڈ تیل فی لیٹر 705 روپے، مونگ پھلی کا تیل فی لیٹر 520 روپے، کوکونٹ 200 ایم ایل 175 روپے، بی کو 100 ایم ایل 250 روپے ہے
صحت کے لیے مفید ہے
کلسٹرول فری تیل ہے اور اس میں کئی مفید چیزیں ہیں وندنا بتاتی ہیں کہ لکڑی میں پسے ہوئے تیل کا استعمال کرنے والوں کو پیٹ کے لیے بڑا فائدہ مند ہے، ریگولر استعمال کرنے والوں کا دعوی ہے کہ انہیں گیس سے بھی نجات ملی ہے جبکہ بچوں کی مالش کےلیے بھی بڑا مفید ہے۔ اسکن پر بڑی آسانی سے یہ جذب ہوتا ہے اور جلد کو اچھا بناتا ہے اسکے علاوہ یہ صحت پر مضر اثرات مرتب نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ خالص ہے اور کم درجہ حرارت میں نکالا ہوا ہے۔
مشین میں لکڑی کا ہے کندا
جس کولہو مشین سے تیل نکالا جاتا ہے اسکا باہری حصہ لوہے اور لکڑی کا ہے جبکہ اسکا گملا جس میں سرسوں اور دوسری چیزیں پیسنے کے لیے ڈالی جاتی ہیں وہ اسٹیل کا ہے لیکن مشین جس کے پریشر سے دبا کر تیل نکالتا ہے وہ خالص لکڑی ہے، اس میں بیل کے درخت کی لکڑی کا استعمال ہے، پرانے کولہو میں بھی سرسوں کو پیسنے والی چیز لکڑی ہوتی تھی۔ اس میں الیکٹرک موٹر کا کام یہ ہے کہ وہ صرف لکڑی کے کندے کو کولہو کے بیل کی طرح آہستہ آہستہ گھوماتا ہے، جس سے دبنے کی وجہ سے تیل نکلتا ہے۔ اسکی کھلی جو سرسوں یا دوسری چیزوں کے پیسنے پر نکلتی ہے وہ انتہائی نرم ہوتی ہے جبکہ دوسری ملوں کی کھلی سخت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- سرکاری اناج کی کالا بازاری میں استعمال ہونے والا ٹرک ضبط، ڈرائیور فرار
- گروکول سپر 30 کے سبھی طالب علم جے ای ای مینس میں کامیاب
وندنا کماری کے مطابق کھلی کو بھی وہ فروخت کرتی ہیں اور تیل کی لاگت پر اتنی رقم کو مائنس کرکے قیمت متعین کرتی ہیں، وہیں گیا میں لگڑی سے نکالے جانے والے تیل کی مانگ دن بدن بڑھ رہی ہے، ڈسٹرک مجسٹریٹ نے اسکو بڑھاوا دینے کے لیے متعلقہ محکمہ کو خاص ہدایت بھی دی ہے۔