فون پر اس لڑکے نے بتایا کہ کسی سماجی تنظیم کی طرف سے ان لوگوں کو صرف ایک وقت کا کھانا دیا جاتا ہے، اسی کے سہارے وہ لوگ زندہ ہیں۔
گھر واپس لوٹنے کیلئے رجسٹریشن کرائے ہوئے بھی کئی دن گزر گئے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ شمشاد بھی چھوٹا موٹا کام کرکے کسی طرح اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے تھے، لاک ڈاؤن کے بعد سے وہ بھی بند ہے، حالات سے پریشان گھر والے حکومت سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔
اسی طرح اسی محلہ کا باشندہ محمد مصطفیٰ کا بڑا بیٹا ممبئی میں پھنسا ہے۔ وہ گھر میں کمانے والا واحد فرد ہے۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ ان کا بیٹا کب واپس گھر لوٹ پائے گا۔ مصطفیٰ اور شمشاد اکیلے نہیں ہیں، جن کے بچے دیگر شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں بلکہ یہ ہزاروں لوگوں کے گھر کی کہانی ہے۔
جن کے لخت جگر بیرون ریاستوں میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سماجی کارکنوں کا ماننا ہے کہ یہ ریاستی اور مرکزی حکومت کی ایک بڑی ناکامی ہے۔
دو دن قبل بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے دیگر شہروں میں پھنسے بہاری مزدوروں کو ایک ہفتہ کے اندر لانے کا حکم دیا ہے لیکن جس طرح سے انتظامیہ کام کر رہی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہےکہ کئی ہفتوں کے بعد بھی سبھی پھنسے مزدوروں کو واپس لانا ممکن نہیں ہوگا اور ان مزدوروں کو وہیں بھوکے پیاسے مصیبت کے دن کاٹنے ہوں گے۔