خطوط نگاری کو اردو ادب کے صنف میں قدیم روایت کا اہم شاہکار تسلیم کیا گیا ہے جس کی اہمیت و افادیت ہر زمانے میں رہی ہے، خطوط اپنے عہد کی تاریخ کا سب سے معتبر اور مسلم ثبوت سمجھا جاتا ہے جس کی تاریخ کے پردے سے جھانک کر کئی ادوار دیکھے جا سکتے ہیں۔ مگر آج کے ٹیکنالوجی اور ترقی یافتہ دور میں خطوط نگاری کا رواج تقریباً ختم ہونے کے کگار پر ہے. واٹس اپ، فیس بک، انسٹاگرام، ٹیوٹر سمیت متعدد ایسے ڈجیٹل ذرائع ہیں جس کے وجود میں آنے سے خط لکھنے اور بھیجنے کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے. ایسے میں اگر کوئی سیاسی رہنما اس روایت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہو تو یقیناً آج کے وقت میں یہ حیران کن بات لگتی ہے.Importance of letter writing in Urdu
کانگریس کے سینئر رہنما و کٹیہار ضلع کے کدوا سے رکن اسمبلی شکیل احمد خان معدوم ہوتی اس روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، گویا صنف خطوط نگاری کے بجھتے چراغ کو آباد کئے ہوئے ہیں. شکیل احمد خان طالب علمی کے زمانے سے اردو میں اپنے والدین و دوست و احباب سے خط و کتابت کرتے آ رہے ہیں، ٹیکنالوجی کا اثر ان کے دوست و احباب پر تو پڑا مگر آج بھی بدستور یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔Shakeel Ahmad Khan is committed to the development of Urdu
شکیل احمد خان رکن اسمبلی بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں چھوڑا، آج بھی کسی مسائل پر حکومت کو توجہ دلانے کے لئے وزیر اعلیٰ سے لیکر دیگر وزراء اور محکموں سے اردو میں ہی خط و کتابت کرتے ہیں. مگر افسوس کہ ان کے اردو میں بھیجے گئے خطوط کا جواب وزیر اعلیٰ یا کسی وزراء کی جانب سے آج تک نہیں دیا گیا. حد تو یہ ہے کہ شکیل احمد خان نے اردو کی ترقی، اقلیتوں کے موجودہ مسائل پر مختلف پارٹیوں کے مسلم رہنماؤں اور اردو اداروں کو بھی اردو زبان میں کئی خطوط ارسال کئے مگر ان مسلم رہنماؤں یا اداروں کی جانب سے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ان کے خط کا کوئی جواب ان تک پہنچا۔
کانگریس رہنما ان تمام خطوط کا عکس بحفاظت اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جس سے اردو کے تئیں ان کی دردمندی اور فکر ظاہر ہوتی ہے. شکیل احمد خان نے مسلم لیڈران کو اپنے خطوط کے ذریعہ اردو میں خط و کتابت کا سلسلہ باقی رہے اس پر ہمیشہ زور دینے کی کوشش بھی کرتے رہے، اس کے علاوہ انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر مسلم دانشور و سیاسی لیڈروں کئی نشست بھی بلا کر بیدار کیا مگر نتیجہ صفر رہا۔
شکیل احمد خان جے این یو سے اردو میں ایم اے و ایم فل کی تعلیم حاصل کر سیاست میں قدم رکھا ہے، سیاسی زندگی میں آنے کے بعد بھی اردو ادب کے طالب علم کی حیثیت سے آج بھی بڑا وقت ادب کی کتابوں کے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں، اردو زبان شکیل احمد خان کے روز مرہ کی زندگی میں اس قدر شامل ہے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ پہلے اپنے اہل خانہ سے شروع کرتے ہیں اور بچوں کو خود ہی اردو و عربی کی تعلیم دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں:اردو کے ساتھ انصاف کرنے بہار حکومت سے مطالبہ
انہوں نے آج بھی اس امید کے ساتھ اقلیتوں کے مسائل پر وزیر اعلیٰ و دیگر وزراء کو اردو میں مکتوب روانہ کر رہے ہیں کہ اردو نواز کہی جانے والی نتیش حکومت کی توجہ ایک نہ ایک دن اس پر ہوگی۔