پٹنہ: امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے ساتویں امیر شریعت حضرت مولانا سید ولی رحمانی رحمۃاللہ علیہ کے انتقال کے بعد سے امیر شریعت کا عہدہ خالی ہے۔ امارت شرعیہ کے دستور کے مطابق تین ماہ کے اندر امیر شریعت کا انتخاب ہو جانا ہے۔ تاہم کورونا وبا کے پیش نظر امیر شریعت کے انتخاب میں تاخیر ہورہی ہے۔ حالانکہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ تینوں ریاستوں کے لوگ اپنے نئے امیر شریعت کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔
امارت شرعیہ کی جانب سے آئندہ آٹھ اگست کو نئے امیر شریعت کے نام کا اعلان ہونے کے بعد مجلس ارباب حل و عقد دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ وہیں، قبل سے امیر شریعت کے عہدہ کے لیے امیدواروں کے حق میں ان کے حامیوں کی جانب سے اپنے اپنے حلقوں میں دستخطی مہم چلایا جارہا ہے۔ مختلف امیدواروں کے حامی آمنے سامنے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اب ایسے وقت میں لوگوں کی نگاہ ملک کے معروف عالم دین، امارت شرعیہ کے رکن شوریٰ و آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی طرف جا رہی ہے جو اس وقت غیر متنازع شخصیت کے حامل ہیں۔
مزید پڑھیں:
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے امارت شرعیہ کو موجودہ حالات، امیر شریعت کے انتخاب اور اس کے طریقہ کار اور لوگوں کی ان کی جانب اٹھ رہی نگاہوں کے تعلق سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ سے تفصیلی گفتگو کی اور اپنا موقف پیش کیا۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ 'اگر امارت شرعیہ کو انتشار سے بچانے کے لیے اتفاق رائے کے ساتھ ارباب حل و عقد کے اراکین مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے مجھ سے درخواست کرتے ہیں تو میں بزرگوں کی امانت کو بچانے کے لیے عہدہ قبول کرنے کو تیار ہوں۔ اور کیا کچھ کہا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے دیکھیے اس خصوصی انٹرویو میں۔