ان کے مطابق ریاست بہارکے وقف املاک میں کمیٹی کا کھیل کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، املاک کے وارثین کے درمیان متولی اور کمیٹی بنانے کا تنازعہ چلتا آرہا ہے۔ اس میں اہم رول وقف بورڈ ادا کرتا ہے۔ بورڈ کو وقف قانون کے تحت کمیٹی بنانے کا حق حاصل ہے لیکن زیادہ تر معاملوں میں بورڈ جانبدارانہ طور پر کمیٹی تشکیل کر تنازعہ کھڑا کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک و ریاست گیر سطح پر وقف املاک کی تباہی کا واحد ذریعہ کمیٹیاں اور بورڈ کے بیچ تنازعہ ہے۔ بورڈ کے عہدے داران ان کمیٹیوں کے بیج تنازعہ پیدا کر کسی ایک فریق کو متولی بنا دیتا ہے اور وقف کے حقیقی وارث اس سے محروم رہتے ہیں۔
ان کا الزام ہے کہ بورڈ کے چیئرمین اور دوسرے عہدے داران غاصب کمیٹیوں کو کھڑا کر ان سے اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں، کئی معاملوں میں وقف بورڈ وقف ٹریبیونل اور عدالتوں کے فیصلے کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔
سارن چھپرہ بہار کے وقف نمبر 1081 پر دعویٰ کرنے والے وارث نے وقف بورڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ وقف بورڈ نے ان کی جگہ غاصب لوگوں کو ان کے وقف املاک پر قبضہ دے دیا ہے۔اُن کے مطابق بہار ریاستی سنی وقف بورڈ نے وقف ٹریبیونل کا فیصلہ ماننے سے بھی انکار کیا ہے۔
اس معاملے میں جب ریاستی سنی وقف بورڈ کے چیئرمین محمد ارشاد اللہ سے گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کردیا کہ یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
وقف املاک پر وراثت کا دعویٰ کرنے والے محمد پرویز نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ وقف کے ہمارے بڑے بھائی محمد قاسم رضا حقیقی وارث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'واقف نے اپنے وقف نامے میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ان کے بعد انکا وارث اس وقف املاک کا متولی ہوگا جبکہ بہار ریاستی سنی وقف بورڈ نے ان کی جگہ کسی اور کو کمیٹی کا متولی بنا دیا اور ساتھ ہی نئی کمیٹی تشکیل دے دی جس کے خلاف انہوں نے پٹنہ ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل سید علمدار حسین کے ذریعے عرضی دائر کی ہے۔