علیگڑھ اسٹیشن پر ہجومی تشدد کا معاملہ اس وقت پیش آیا جب ایک کنبہ بغرض علاج ٹرین سے اتر رہا تھا اسی دوران اسٹیشن پر موجود 20 سے 25 افراد نے اچانک ان پر حملہ کردیا۔
حملے کی وجہ سے دو افراد زخمی ہوگئے تھے جن کو علیگڑھ کے جے این ایم سی میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا ہے۔
کنبہ نے الزام لگایا ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر تعینات پولیس اہلکار موبائل سے ویڈیو بنارہے تھے انہوں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی اور ہم سے کہا جہاں جا رہے تھے وہاں چلے جاؤ کسی پولیس اہلکار نے ان لوگوں کو بچانے کی زحمت نہیں کی۔
کنبے میں موجود خاتون کو دور پھینک کر دو افراد کو بری طرح زخمی کر کے بھاگ گئے۔ یہ منظر دیکھ کنبہ کی ایک لڑکی موقع پر ہی بے ہوش ہوگئیں۔
پولیس متاثرہ کے اہل خانہ کی تحریر پر اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔
زخمی سلیم خان کی اہلیہ مہرالنساء نے بتایا ٹرین سے اترتے ہی بیس بچیس لوگوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا پولیس وہاں موجود تھی انھوں نے کچھ نہیں کہا، دو لوگوں کو مارا، میں نے ہاتھ پیر جوڑے تب جا کر چھوڑا میری لڑکی بے ہوش ہو گئی تھی۔
زخمی سلیم خان نے بتایا وہ لوگ ٹرین میں نہیں تھے، مسلم نہیں تھے، وہ لوگ بھاگ کر آئے اور مارنے لگے میری بیوی نقاب میں تھی، 2000 روپیے اور چودہ ہزار کا موبائل بھی چھین لیا، کوئی بات نہیں تھی، کچھ بولے نہیں ماننے لگے اور ویڈیو بھی بنا رہے تھے۔ ہم کنوج سے علیگڑھ آنند بہار ٹرین سے آرہے تھے۔
محمد ناظم، یوتھ ریاستی صدر، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے کہا سوچنے کی بات ہے پولیس کیا کر رہی تھی، پولیس تماشہ دیکھ رہی تھی، پولیس ویڈیو بنا کر فیس بک پر چلانے کے لیے ہے، پولیس اپنا کام صحیح سے نہیں کر رہی ہے وہ مظلوموں کو نہیں بچا رہی، کمزوروں کو نہیں بچا رہی، قاتلوں کو نہیں روک پا رہی غلط کرنے سے۔ پولیس کا کام کیا ہے ملک کو ہو کیا گیا ہے ملک میں بھیڑ کسی کو بھی کبھی بھی مارے گی، جیسے متاثرہ خاندان نے بتایا یا کہ ماننے والے بیس پچیس افراد وشو ہندو پریشد کا کارڈ پہنے ہوئے تھے۔
یاش پال سنگھ، پربھاری جی عر پی ایف علیگڑھ کا کہنا ہے کہ ایک خاندان انند بہار ٹرین سے علیگڑھ ریلوےاسٹیشن اتر رہا تھا اسی وقت جگہ سے ہٹنے پر لڑائی ہوگئی جس میں دو لوگ گھائل ہیں۔ متاثرہ افراد سے تحریر لی جارہی ہے، مقدمہ لکھ کر ایکشن لیا جائے گا۔