شادمان نعمانی نے کہا کہ 'تعلیمی معیار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، اگر بنیادی طور پر ہی بچوں کو صحیح تعلیم حاصل نہیں ہوئی تو آگے بھی وہ کمزور ثابت ہوں گے۔ آج اسکولز میں طلبا کے داخلے کا تناسب تو بڑھا ہے مگر ان کی حاضری ہنوز اصلاح طلب ہے۔
پرائمری اسکولز سے لے کر یونیورسٹی تک اساتذہ اور پروفیسر کی قلت ہے۔ آج اسکولز کو اپگریڈ تو کیا جا رہا ہے مگر اساتذہ کی قلت برقرار ہے جس کی وجہ سے اسکولز اور یونیورسٹی میں درس و تدریس کا کام نہیں ہو پا رہا ہے۔'
ایس آئی او ارریہ کے صدر مشیر عالم نے کہا کہ 'یہ بات قابل توجہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور افسروں کے بچے تمام سہولیات سے لیس ہو کر پرائیویٹ اسکولز میں پڑھتے ہیں جبکہ معاشی طور پر کمزور افراد کے بچوں کا مستقبل سرکاری اسکولز کے بھروسے ہے۔'
ایس آئی او کے سابق رکن منیر عالم نے کہا کہ 'تعلیمی ترقی کے لیے سرکاری اسکولز کو پرائیویٹ اسکولز کے معیار سے بہتر بنانا ہوگا۔ گاؤں گاؤں گھوم کر جہاں سرکاری اسکولز ہیں اس کا جائزہ لیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہاں اساتذہ بچوں کو کس طرح تعلیم دے رہے ہیں یا محض خانہ پری کے لیے اسکولز میں آ رہے ہیں۔'