جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں میں موجود یہ آٹا پیسنے والی چکیاں ویران ہیں، جہاں ایک دن میں کوئنٹل کے حساب سے مکئی اور گیہوں کو آٹے میں تبدیل کیا جاتا تھا، وہاں آج دن میں محض 10 سے 20 کلو ہی آٹا پیسا جاتا ہے۔
ضلع بارہمولہ کے نورکا گاؤں میں پہلے 20 سے زائد آٹا پیسنے والی چکیاں موجود تھیں لیکن اب گاؤں میں صرف 2 چکیاں رہ گئی ہیں۔
ان دو چکیوں میں سے ایک چکی کے مالک بشیر احمد نجار کا کہنا ہے 'ان کے دادا کے زمانے سے یہ چکی چلتی آرہی ہے، لیکن آج یہ بند ہونے کے دہانے پر ہے'۔
انہوں نے کہا 'میرے دادا اور والد کے زمانے میں مکئی ہوا کرتی تھی لیکن آج لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے، لوگ فصل نہیں اُگا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہمیں اپنا روزگار چلانے میں مشکل درپیش ہے'۔
بشیر احمد نجار کے بیٹے کا کہنا ہے 'کچھ زمین سڑکوں نے کھا لی اور کچھ پر لوگوں نے مکان بنا لیے اور کھیتی باڑی کرنے والے کم ہوگئے، جس کی وجہ سے ہمارا روزگار ٹھپ ہوگیا ہے'۔
انہوں نے کہا 'جس طرح ہمارے باپ دادا نے آٹا پیسنے کا کام کیا، ویسے ہی ہم بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر ہمارے پاس لوگ آٹا پسوانے نہیں آئیں گے تو ہمارا روزگار کیسے چلے گا'۔
ایک وقت تھا جب ایشیائی ممالک میں لوگ دیسی طریقے سے گزر بسر کرتے تھے، آج کپڑے بنانے والے بُنکروں سے لے کر آٹا پسنے والی چکی، ایک ایک کر کے مقامی کاروبار بند ہو رہے ہیں اور پھر ایک دن یہ سبھی کاروبار محض تاریخ بن کر رہ جائیں گے۔