آسام میں این آر سی سے مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کا اب ایک نیا کھیل شروع کیا گیا ہے.
نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ہتیش دیو شرما گزشتہ 13 اکتوبر کو ریاست کے تمام ڈسٹرکٹ رجسٹرار آف سٹیزن رجسٹریشن ڈی آر ایس آر کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے کہا ہے کہ ہماری معلومات میں یہ بات آچکی ہے کہ ایسے بہت سے غیر قانونی اشخاص اور ان کے اجداد کا نام این آر سی میں شامل ہوگیا ہے جو یا تو مشکوک ہیں یا ڈی ووٹر ہیں یا پھر فارن ٹریبونل سے غیر ملکی قرار دیے جاچکے ہیں.
ایسے تمام لوگوں کا نام این آر سی سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ غیر ملکی ہیں انہوں نے اس حوالہ سے شہریت قانون (شہریوں کا رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ کا اجرا) 2003کی دفعہ 4(3)کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آسام میں این آرسی کی حمتی فہرست کی اشاعت سے قبل ضرورت کے مطابق اس طرح کے لوگوں کے ناموں کا ری ویریفکیشن کیا جاسکتاہے، جبکہ سچائی یہ ہے کہ 23جولائی 2019 کو مرکز اور آسام سرکار این آر سی کی جزوی فہرست کی اشاعت کے بعد ایسے لوگوں کے خلاف ری ویریفیکیشن چاہ رہی تھی جن کے رشتہ دار این آر سی میں شامل نہیں ہیں، لیکن اس وقت سپریم کورٹ نے ان کی درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ اب دوبارہ این آرسی یا ویری فیکیشن کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے این آر سی کی حتمی فہرست 31 اگست 2019 تک شائع کردی جائے.
ہرچند کہ جمعیۃ علماء ہند نے ڈی ووٹر کو ہولڈ پر رکھنے کی ایک اپیل سپریم کورٹ میں کر رکھی ہے، مگر اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ انہیں ہولڈ پر نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ یہ غیر ملکی ہیں اس لیے ان کا نام این آر سی سے خارج ہونا چاہئے، قابل ذکر ہے کہ یہ وہی ہتیش دیو شرما ہے جو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر بننے سے پہلے ہی آسام شہریت کے تعلق سے اپنے بیانات کو لیکر متنازعہ ہوچکے تھے، ان کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر بننے کے فورا بعد جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرکے ان کی تقرری پر سوال اٹھایا تھا اور دلیل دی تھی کہ مسٹر شرما غیر جانبدار نہیں ہے اور پہلے ہی اپنے اشتعال انگیز بیانات سے سرخیوں میں آچکے ہیں، جن میں انہوں نے ایک مخصوص طبقہ کو اپنا نشانہ بنایا ہے، اس لیے اس طرح کے کسی شخص کو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر جیسی اہم ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے؟
اس پر سپریم کورٹ نے مرکز اورآسام حکومت سے جواب طلب کیا تھا مگر ان کی طرف سے اب تک کوئی جواب عدالت میں داخل نہیں کیا گیاہے. یہ معاملہ عدالت میں زیر التواہے، ایسے میں اسٹیٹ کوآرڈینیٹر اس طرح کا کوئی حکم کیوں کر جاری کرسکتا ہے؟ دوسرے سپریم کورٹ کی ایک مانیٹرنگ بینچ بھی ہے جو آسام شہریت معاملہ پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہے، ایسے میں ایک بڑاسوال یہ اٹھتاہے کہ کیا اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے اس طرح کا حکم جاری کرنے سے پہلے مانیٹرنگ بینچ کو اعتماد میں لیا ہے اگر نہیں تو کیا ایسا کرکے انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا؟
جمعیۃعلماء ہند اور آمسو انہی سوالوں کی بنیاد پر اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے تازہ حکنامہ کو آج سپریم کورٹ میں اپنے وکیل فضیل ایوبی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعہ چیلنچ کرنے جارہی ہے.
واضح رہے کہ جمعیۃعلماء ہند اور جمعیۃعلماء صوبہ آسام اول دن سے آسام شہریت معاملہ میں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر مسلسل قانونی جنگ لڑتی آئی ہیں جس میں اسے کامیابی ملتی رہی ہے.