تلگو ریاست آندھراپردیش میں واقع ریاست کی پہلی اردو یونیورسٹی، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) حکومت ہند، نئی دہلی کے مالی تعاون سے دو روزہ قومی ورکشاپ بعنوان’جدید سائنسی اور تکنیکی تعلیم بہ ذریعہ اردو، مسائل اور حل‘ کا انعقاد عمل میں آیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس قومی ورکشاپ میں متعدد یونیورسٹیوں کے پروفیسران اور ریسرچ اسکالرز نے اردو زبان میں سائنسی اور تکنیکی مواد اور کتابوں کے ضمن میں مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں پیش آنے والے مسائل کا تذکرہ کیا گیا۔ وہیں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اردو زبان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے کس طرح کی کوششیں کی جائیں۔
آندھراپردیش کے کرنول میں واقع ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مظفر شہ میری نے اپنے کلیدی خطبہ کہا کہ اردو زبان شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ سائنس و تکنالوجی کی بھی زبان ہے۔ اردو زبان ایک علمی و ثقافتی زبان ہے۔ اردو زبان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ تاکہ اس سے نئی نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے اس کاز کو آسان بنایا جاسکے۔
پروفیسر مظفر شہ میری نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ فی زمانہ اردو میں جدید سائنسی و تکنیکی تعلیم کی ترویج میں کئی مسائل حائل ہیں۔ ان مسائل اور اس کے اسباب سے کما حقہ واقفیت حاصل ہوجائے تو ان کے حل تلاش کرنا دشوار نہ ہوگا۔ ہندوستان ہمہ لسانی ملک ہے اور ہر زبان والا اپنی علمی، سائنسی اور تکنیکی اصطلاحیں بنانا چاہتا ہے۔ ہندوستان میں اردو ایک بین صوبہ جاتی زبان ہے۔ اس ضمن میں اہل اردو کو بھی پیش قدمی کرنا چاہیے۔ ملک کی نئی قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) میں بھی مادری زبان میں تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ورکشاپ اسی مقصد کے تحت منعقد کیا جارہا ہے۔ تاکہ اردو ذریعہ تعلیم میں اساتذہ اور طلبہ کو پیش آنے والی مشکلات کو حل کیا جائے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا ہے کہ اردو زبان میں مختلف علوم و فنون کے باہمی روابط کو بڑھانا چاہیے۔ جس سے ترجمہ اور اصطلاح سازی میں مدد مل سکے۔ جس طرح مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، اسی طرح اردو زبان اور مختلف علوم و فنون میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ سائنسی علوم ہمیں تجربہ و تحقیق اور مشاہدہ کے ذریعہ حقائق تک براہ راست پہونچاتی ہے۔ اسی لیے اردو میں سائنسی اور معلوماتی ادب سے متعلق نصابی مواد کو پیش کرنا ضروری ہے۔ موجودہ دور کی اہم ضرورت ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ میں سائنس کا ذوق و شوق پیدا کیا جائے تاکہ وہ بھی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکے۔ اردو ذریعہ تعلیم کے طلبہ اس ترقی یافتہ دور میں اپنے کو کسی سے کم تر تصور نہ کریں کیونکہ ترقی اور کامیابی کے مواقع ہر ایک کو میسر ہیں۔ جسے اپنی صلاحیتوں اور علم کی بنیاد پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
معروف ادیب اور کئی سائنسی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر عابد معز نے اس ورکشاپ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مادری زبان عطیہ خداوندی ہے۔ جس طرح ہم اپنے والدین کی عزت و تعظیم کرتے ہیں، اسی طرح فخر کے ساتھ ہم اپنی مادری زبان سے تعلق کا اظہار کریں۔ ڈاکٹر عابد معز نے کہا کہ آج کا دور صرف کسی ایک زبان پر ہی اکتفاء کرنے کا نہیں بلکہ ہمیں کئی زبانوں پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔ کوئی بھی زبان ترسیل کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ مادری زبان میں حصول علم سے کسی بھی موضوع پر مکمل اور گہری معلومات حاصل ہوتی ہے۔ مادری زبان میں تحصیل علم کے بعد دوسری زبانوں میں بھی علم حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ڈاکٹر شفیع اخلاص نے اس دو روزہ ورکشاپ ’جدید سائنسی اور تکنیکی تعلیم بہ ذریعہ اردو مسائل اور حل‘ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اردو زبان کو جدید سماجی، ثقافتی، سائنسی علوم اور تکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان علوم میں نصاب کی تیاری اور اس کے مسائل کے حل کو پیش کرنا بھی اس ورکشاپ کا اہم مقصد ہے۔ اس کے ذریعہ اردو اور اہل اردو کو نئے علوم و فنون سے آشنا کیا جاسکے۔
ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی، کرنول کے رجسٹرار ڈاکٹر بی سری نواسلو نے اپنی افتتاحی تقریر میں تمام مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کا قیام سنہ 2016 میں ریاستی حکومت کی سرپرستی میں عمل میں آیا۔ جس کا مقصد اردو تہذیب کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو مادری زبان کے طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ڈاکٹر بی سری نواسلو نے بتایا کہ اردو کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی نہیں بلکہ ہندوستانی زبان ہے۔ جس کو فروغ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ غیر اردو طبقہ میں اردو کے فروغ کے لیے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کے تعاون سے ایک ڈپلومہ کورس شروع کیا گیا ہے۔ یہاں طلبہ کو بہترین اساتذہ، معقول انتظامات اور ساز گار ماحول میں تعلیم دی جارہی ہے۔
این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے ورچوئیل خطاب میں خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو زبان میں سماجی علوم، جغرافیہ، نباتات، حیوانات، کیمیا، انسانی علوم، ایجادات و اختراعات، جنرل نالج، وضع اصطلاحات اور سائبر تکنالوجی سے متعلق نصابی کتب اور مواد کی تیاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ورکشاپ کے موقع پر کوئی تجویز آئے گی تو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) مکمل تعاون کرے گی۔
دو روزہ ورکشاپ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبہ ترجمہ و پبلی کیشن ڈویژن کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد ظفر الدین، ماہر تعلیم فاروق طاہر، یونیورسٹی آف حیدرآباد کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر رحمت یوسف زئی، ڈاکٹر سید سلطان محی الدین حسینی، خالد قیصری، ڈاکٹر امین اللہ، ڈاکٹر نثار احمد (ایس وی یونیورسٹی، تروپتی)، ڈاکٹر امان اللہ (چینائی)، ڈاکٹر نجی اللہ (مانو) وغیرہ نے شرکت کی اور مختلف موضوعات پر اپنے علمی و تحقیقی مقالات کو پیش کیا۔ افتتاحی پروگرام کے بعد تکنیکی سیشن میں ڈاکٹر پرویز، معروف صحافی اعظم شاہد(بنگلور) عطاء اللہ سنجیری (کیرالہ) کے وغیرہ دیگر پروفیسران و ریسرچ اسکالرز نے اپنے مقالات پیش کیے اور مباحث میں حصہ لیا۔ ورکشاپ کے پہلے روز مقالات کی پیشکشی کے ساتھ ساتھ اجتماعی بحث و مباحثہ بھی کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید کے علاوہ یونیورسٹی کے ترانہ ’جامعہ اردو ہماری نازش ہندوستاں‘ سے ہوا۔ مقامی دانشوران پروفیسر بشیر احمد، ڈاکٹر امیر احمد (کرسپانڈینٹ انجمن اسلامیہ کرنول)، سید ظہور اللہ حسینی اور حافظ نذیر احمد کے علاوہ دیگر اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔ اگلے دن ہفتہ کو بھی یہ ورکشاپ جاری رہا۔ جس میں مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسران و ریسرچ اسکالرس نے اردو جدید سائنسی و تکنیکی تعلیم کے مواقع، مسائل اور اس کے حل کے ضمن میں سیر حاصل گفتگو کی۔