وارانسی: جمعرات کو آندھرا پردیش کے ایک ہی خاندان کے چار لوگوں نے دشاسوامیدھ تھانہ علاقہ کے دیوناتھ پور میں واقع کاشی کیلاش بھون کی دوسری منزل پر واقع کمرہ نمبر S6 میں خودکشی کرلی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کے پاس سے ملے ڈھائی صفحات کے خودکشی نوٹ میں پولس نے ان تین لوگوں کی شناخت کی ہے جن سے وہ پیسے لے کر گھر چھوڑ کر کاشی آئے تھے۔ پولیس کی تفتیش میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان لوگوں نے آندھرا پردیش کے رہنے والے تین مختلف لوگوں سے 12 لاکھ روپے لیے تھے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’جب میں 6 لاکھ روپے خرچ کرنے کے بعد بقیہ رقم واپس کرنے گیا تو جن لوگوں نے مجھے رقم دی تھی انہوں نے مجھ سے پوری رقم سود کے ساتھ واپس کرنے کو کہا۔ سود بھی زیادہ تھا اور لی گئی رقم سے زیادہ واپس کرنے کو کہا جا رہا تھا‘‘۔ اس کے بعد پورا خاندان بہت پریشان تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
شاہانہ خودکشی معاملہ: ترواننت پورم میڈیکل کالج کے طالب علم حراست میں
خودکشی نوٹ میں کیا لکھا تھا: خودکشی نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جن لوگوں سے اس نے پیسے لیے تھے وہ اسے مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے۔ چند روز قبل رقم واپس نہ کرنے پر لواحقین کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے تمام گھر والے پریشان تھے۔ دھرم شالہ کے مینیجنگ ٹرسٹی سندر شاستری نے بتایا کہ 50 سالہ کونڈا بابو، اس کا بیٹا راجیش 25، کونڈا بابو کی بیوی 45 سالہ، لاونیا اور چھوٹا بیٹا جیاراج، 23، سبھی کل ایک ساتھ موت کے گھاٹ اتر گئے جب انہوں نے کمرے میں خودکشی کر لی۔
خودکشی کا سامان دھرم شالہ کے قریب سے خریدا گیا تھا: سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان سب نے خود کشی کے لیے تمام سامان قریب سے خریدا ہوگا، کیوں کہ پولس کو کچھ ایسا ملا تھا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس خاندان نے خودکشی کے لیے کاشی میں ڈیرہ ڈالا تھا۔ زندگی کی قربانی دینے کے واحد مقصد کے ساتھ۔ اب تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین اور چھوٹے بیٹے سمیت تین افراد نے پہلے خودکشی کی۔ اس کے بعد راجیش نے خودکشی کر لی۔ تین لاشیں پوری طرح جمی ہوئی تھیں، جب کہ راجیش کا جسم کچھ نارمل تھا۔
خودکشی سے پہلے کی گئی پوجا، چاروں کے ہاتھوں میں کلاوا، ماتھے پر تلک: اس واقعہ نے دہلی کے براری میں 11 افراد کی اجتماعی خودکشی کے منظر کو تازہ کردیا۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد کی خودکشی کے اسی طرح کے معاملہ کے بعد خودکشی کے کچھ واقعات میں ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں، جو معاملہ کو توہم پرستی کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ پولیس کی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ چاروں نے خودکشی کرنے سے پہلے کمرے میں پوجا بھی کی تھی۔ قریب سے ایک کمکم کی بوتل بھی برآمد ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے مرنے سے پہلے چاروں نے ایک دوسرے کے ماتھے پر تلک بھی لگایا تھا۔ ایک پولی تھین میں رولی اور صندل کی لکڑی بھی ملی۔ چاروں نے اپنے ہاتھوں پر کلاوا بھی باندھ رکھا تھا۔
رسی کو باندھنے کا طریقہ ایک ہی تھا: نائیلون کی رسی کا سائز جو چاروں نے خودکشی کے لیے استعمال کیا تھا اور اسے گارٹر پر کانٹے کے ذریعہ باندھنے کا طریقہ بھی ایک جیسا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چار پھندے صرف ایک شخص نے تیار کیے تھے۔ چار رسیوں میں سے دو ایک رنگ کی تھیں اور دو دوسرے رنگ کی تھیں۔ گھر کے دو کمانے والے افراد کونڈا بابو اور راجیش کی رسی نیلی تھی اور لاونیا اور چھوٹے بیٹے جیاراج کی رسی پیلی تھی۔
ہر کمرے میں ایک کانٹا، اس کمرے میں چار اضافی کانٹے تھے: ان چاروں کی لاشیں ایک ایک فٹ کے فاصلہ پر تھیں اور چاروں کے چہرے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ اس کے علاوہ لوہے کا وہ کانٹا جس سے خاندان نے پھندا لگایا تھا، وہ بھی ایک الگ کہانی بیان کرتا ہے، کیونکہ لگتا تھا کہ چاروں کو الگ الگ گارٹر پر لٹکایا گیا ہے۔ یہ ہکس گارٹر پر پنکھے کو لٹکانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ہر کمرے میں پنکھے کو لٹکانے کے لیے ایک ہی ہک کافی ہے۔ کمرے کی لمبائی و چوڑائی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ ہکس ان لوگوں نے الگ سے لگائے تھے۔ ایک مقررہ فاصلہ پر چار کانٹے لگا ئے گئے تھے۔ کمرے میں ایک کانٹے پر پنکھا لٹکا ہوا تھا، جب کہ ان چاروں کانٹوں پر کوئی پنکھا نہیں تھا، جس کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گھر والوں نے یہ چاروں کانٹے لٹکا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔
کمرے میں لگائے گئے ہکس کی کہانی بھی الگ ہے: کمرے کی لمبائی اور چوڑائی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ ہکس ایک بار ان لوگوں نے الگ سے لگائے تھے۔ ایک مقررہ فاصلے پر چار کانٹے لگائے گئے تھے۔ کمرے میں ایک کانٹے پر پنکھا لٹکا ہوا تھا، جب کہ ان چاروں کانٹےوں پر کوئی پنکھا نہیں تھا، جس کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گھر والوں نے ان چاروں کانٹے لٹکا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔
پولیس آندھرا پردیش میں قرض دینے والے تین لوگوں سے پوچھ گچھ کرے گی: اے سی پی دشاسوامیدھ اودھیش پانڈے کا کہنا ہے کہ اب تک کی تحقیقات میں جن تین لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان سے پوچھ گچھ کے لیے آندھرا پردیش پولیس نے رابطہ کیا ہے۔ یہ تینوں وہاں کے مقامی لوگ ہیں اور آج ان سے پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے۔ آندھرا پردیش پولیس خاندان کے دیگر افراد سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ دھرم شالہ سے ملنے والے دستاویزات میں ان چاروں افراد کے خاندان کے کسی دوسرے فرد کے نمبر ابھی تک نہیں ملے ہیں۔
پولیس چاروں کے خاندان کے دیگر افراد کی تلاش کر رہی ہے: مقامی پولیس کی مدد سے آندھرا پردیش کے خاندان سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چاروں کی لاشوں کو فی الحال پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ اگر خاندان کے لوگ آتے ہیں تو آخری رسومات صرف خاندان کے افراد ہی ادا کریں گے۔ ان تمام معاملات میں ایک اور چیز زیر تفتیش ہے۔
لوگ نجات کی تلاش میں کاشی آتے ہیں اور خودکشی کرتے ہیں: آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے لوگ اکثر نجات کی تلاش میں کاشی آتے ہیں۔ اسی طرح 2012 میں ایک ماں اور بیٹی نے آندھرا پردیش سے آنے کے بعد ایک گیسٹ ہاؤس میں صرف اس لیے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ انہیں کاشی میں موت کے بعد نجات ملے گی۔ ابھی چند دن پہلے آندھرا پردیش کے ایک مقامی شخص نے گنگا گھاٹ پر اپنی جان قربان کردی تھی۔ تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اس نے آزادی کی تلاش میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔
قدرتی موت کے بعد ہی نجات ملتی ہے: وشوناتھ ٹیمپل ٹرسٹ کے رکن پنڈت پرساد ڈکشٹ کا کہنا ہے کہ بے وقت موت کی صورت میں یعنی خودکشی یا کوئی اور طریقہ سے موت پر نجات مل جانے کی گیارنٹی نہیں دی جا سکتی، یہ غلط ہے۔ یہ صرف ممکن نہیں ہے۔ جب موت فطری ہو تب ہی کاشی میں نجات اور آزادی مل سکتی ہے، کیونکہ ہندو دھرم کے مطابق بھگوان شیو قبل از وقت موت میں نجات کا منتر نہیں دیتے ہیں، بلکہ قدرتی موت میں ہر وہ شخص جو اپنی جان چھوڑ دیتا ہے، اسے کاشی میں تارک منتر مل جاتا ہے، جس کی وجہ سے نجات کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔