جنوبی کشمیر کے درجنوں دریاﺅں کا وجود اب خطرے میں پڑ گیا ہے کیوں کہ ان ندی نالوں پر لوگوں نے اپنا قبضہ جما لیا ہے جن ندی نالوں کی چوڑائی سیکڑوں فٹ ہوا کرتی تھی، آج محض چند فٹ رہ گئی ہے۔ تاہم انتظامیہ اس سلسلہ میں خاموش نظر آرہا ہے جو قابل افسوس ہے۔
نالہ برنگی، نالہ آرپتھ، نالہ ساندرن، نالہ وشو، نالہ لدر اور دیگر نالے جو آگے چل کر ایک ساتھ مل کر یہاں کے سب سے بڑے دریا، دریائے جہلم کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ سب کا وجود خطرے میں ہے۔
پندرہ سے بیس برس پہلے مذکورہ نالوں کی چوڑائی 150 فٹ سے 250 فٹ ہوا کرتی تھی اور ان ندی نالوں کا پانی صاف و شفاف ہوتا تھا جو پینے کے ساتھ دیگر ضروریات کے لئے بھی استعمال کیا جا تا تھا لیکن آج ان نالوں کی چوڑائی سکڑ کر محض 15 سے 25 فٹ رہ گئی ہے اور پانی بھی کافی آلودہ ہو چکا ہے۔
آس پاس رہنے والے لوگوں نے نالوں کے دونوں اطراف ناجائز طریقے سے قبضہ کر کے، رسوئی، بیت الخلاء، صحن، دکانات و مکانات تعمیر کئے ہیں جبکہ کئی جگہوں پر زمینداروں نے ان نالوں کے کناروں پر قبضہ کر کے پیڑ پودے لگائے ہیں۔
وہیں آئے روز ان نالوں کے کناروں پر بھرائی ڈال کر ان کی کشادگی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بیت الخلاﺅں اور گندی نالیوں کا رخ بھی مذکورہ ندی نالوں کی جانب کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کا پانی کافی آلودہ ہو چکا ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ آبی ذخائر پر قبضہ جمانے والے افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں متعلقہ محکمہ جات کی خاموشی قابل افسوس ہے۔ ادھر میونسپل حکام کی جانب سے یہاں کے اکثر ندی نالوں کے کناروں پر ڈمپنگ سائٹس قائم کی گئی ہیں جو ان نایاب آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا اور ایک سبب ہے۔ وہیں عام لوگ بھی اپنے گھروں کا سارا کوڑا کرکٹ ان ندی نالوں کے حوالے کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
غیر ملکی سفارتکاروں کا پھر سے کشمیر دورہ
اس حوالے سے ماہرین ماحولیات نے بتایا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ان ندی نالوں کا وجود ختم ہو جائے گا اور یہ نالے محض کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لئے استعمال میں لائے جائیں گے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کی ٹیم نے کئی روز تک محکمہ آبپاشی دفتر جا کر افسران سے بات کرنے کی کوشش کی۔ تاہم مذکورہ محکمہ کے ایگزیکیوٹیو انجینیئر نے فون کال پر اپنی مصروفیات اور میٹنگس کا حوالہ دیتے ہوئے کیمرہ کے سامنے آنے سے منع کر دیا۔