وادی کشمیر میں پھولوں کا موسم نہ صرف یہاں کے حُسن میں چار چاند لگا دیتا ہے بلکہ یہ موسم شہد کی مکھیوں کی افزائش کے لئے کافی موزوں ہوتا ہے تاہم کیکر کے پھولوں کا موسم ان کے لئے سب سے بہترین سیزن تصور کیا جاتا ہے حالانکہ وادی میں سیب، آڈو، ناشپاتی و دیگر خشک و تازہ پھلوں کے درختوں کے شگوفوں کا موسم مارچ اور اپریل میں اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ تاہم مئی کے مہینے میں کیکر کے پھول پھوٹ پڑتے ہی شہد کی مکھیاں پالنے والے افراد وادی کے مختلف علاقوں میں شہد کی مکھیوں کے چھتے لگانا شروع کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف موسم کے حساب سے شہد کی کوالٹی بھی مختلف ہوتی ہے تاہم کیکر کے پھولوں کے استخراج کا شہد سب سے اعلیٰ کوالٹی کا مانا جاتا ہے۔ دراصل ککر کے پھولوں کا رس دیگر پھولوں کے مقابلہ میں کافی میٹھا ہوتا ہے، شہد کی مکھیاں اسے کافی پسند کرتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف بہتر معیار بلکہ شہد کی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیکر کے پھولوں کا موسم شہد کے کاروباریوں کے لئے کافی سود مند ہوتا ہے۔
وادی کشمیر کافی زرخیز ہے اور یہاں اگنے والے پھولوں کی بڑی تعداد ہے۔ جس کی وجہ سے وادی میں شہد کی مکھیوں کی افزائش اور شہد کا کاروبار کافی منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے لیکن کشمیر میں اس کے کاروبار کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور بہت کم لوگ اس کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہد کے کاروبار سے جڑے غیر ریاستی باشندے بھی موزوں موسم میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضلع اننت ناگ کے کتری ٹینگ علاقہ میں موجود ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے شہد کے تاجروں کا کہنا ہے کہ وہ ہر برس کیکر کے پھولوں کے موسم میں شہد کے ڈبے یہاں لگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سال بھر ملک کی مختلف ریاستوں میں شہد کا کاروبار کرتے ہیں لیکن مارکیٹ میں سب سے زیادہ مانگ کیکر کے پھولوں کے شہد کی ہوتی ہے، جو بہتر پیداوار کے ساتھ ساتھ کافی منافع بخش بھی ہوتا ہے۔ شہد کے مکھی کی کالونی (ڈبے) میں دس ریک ہوتے ہیں اور ان میں 25 کلوگرام تک شہد پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
ذرائع کے مطابق کشمیر میں اس وقت تقریبا 70 ہزار شہد کی کالونیاں (چھتے) نجی اور سرکاری سیکٹر میں موجود ہیں۔ اس حساب سے سالانہ 17 لاکھ 50 ہزار کلو شہد حاصل ہونا چاہئے۔ جسے مجموعی طور87 کروڑ روپئے سے زیادہ سالانہ آمدنی حاصل ہو سکتی ہے تاہم اس کاروبار کو زیادہ فروغ نہ ملنے کی وجہ سے وادی میں سالانہ صرف 20 کروڑ کا کاروبار ہوتا ہے۔
بتا دیں کہ شہد کی مکھیوں کے لیے معتدل درجہ حرارت کا ہونا لازمی ہے۔ اضافی اور قلیل درجہ حرارت شہد کی مکھیوں کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کاروبار سے جڑے افراد رطوبت کا تعاقب کرتے ہیں اور شہد کے چھتے دوسری ریاستوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ جس سے نہ صرف شہد کی مکھیاں محفوظ رہتی ہیں بلکہ کاروبار بھی مستقل رہتا ہے۔
شہد کا استعمال نہ صرف جسمانی قوت کو مضبوط بنانے لئے کافی مفید ہے بلکہ اس سے موم، رائل جلی، ویکس جیسی چیزیں بھی حاصل کی جاتی ہیں، جو اہم ادویات بنانے کے کام بھی آتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میوہ صنعت سے وابستہ افراد بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں کیونکہ سیب و دیگر میوہ جات کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے شہد کی مکھیوں کو پولی نیشن کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔