وادی میں نامساعد حالات کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ عام لوگ گھروں سے باہر جانے سے احتراز کررہے ہیں لیکن بعض اوقات انتہائی مجبوری میں لوگوں کو حالات کی پرواہ کئے بغیر گھروں سے باہر جانا پڑتا ہے۔ ان لوگوں میں عام طور بیمار اور انکے تیماردار ہوتے ہیں۔
جنوبی ضلع اننت ناگ میں طبی سہولیات کے محتاج کئی لوگوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اسپتال تک پہنچنے میں انہیں گوناگوں مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا لیکن اسپتال پہنچ کر انہیں قابل قدر طبی سہولیات میسر ہوئیں۔
رات کے دوران لوگوں کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جارہی ہے جس سے انہیں کافی مشکلات پیش آرہی ہیں۔
تیمارداروں کا کہنا ہے کہ بندشوں کی وجہ سے انہیں اسپتال آنے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جبکہ کئی مقامات پر انہیں روکا جاتا ہے تاہم ان مشکلات کے باوجود انہوں نے طبی سہولیات دستیاب ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
میڈیکل اسپر انٹینڈینٹ اننت ناگ ڈاکٹر مجید مہراب نے بتایا کہ 'ہم نے بیماروں کے لیے ہر طرح کی سہولیات رکھی ہیں ، اور ہر طرح کی ضروری ادویات بھی دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈاکٹر 24 گنٹے دستیاب رہتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں 5 اگست کو حکومت ہند کی جانب سے دفعہ 370 کو غیر مؤثر بنانے اور ریاست کا خصوصی آئینی درجہ منسوخ کئے جانے کے بعد سے امتناعی احکامات مسلسل نافذ ہیں جن سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔
حکام نے مواصلاتی نظام پر کلی یا جزوی پابندیاں عائد کی ہیں جب کہ وادی کے متعدد مقامات پر فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔انتظامیہ کے بعض اہلکاروں اور پولیس تھانوں کے موبائل فون بحال کئے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ وادی کے سبھی ٹیلیفون ایکسچینج فعال بنائے گئے ہیں اور اب لوگ لینڈ لائن فونز کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے قبل ہی سیاسی جماعتوں کے سربراہان سمیت کئی ہند نواز رہنماؤں کو سرینگر کے سنتور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان رہنماؤں میں ریاست کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔