بھارتی اولمپک ایسو سی ایشن نے ذمہ داری لی ہے کہ وہ آئندہ اولمپک میں زیادہ سے زیادہ تمغات جیت کر فتح کر ملک کا نام روشن کریں گے اور اس کے لیے انہوں نے بڑے اہداف بھی مقرر کیے ہیں۔لیکن انہوں نے جو اہداف مقرر کیا ہے وہ حقیقت سے بعید نظر آرہے ہیں۔
انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر نریندر باترا نے چھ ماہ قبل انکشاف کیا تھا کہ بھارت انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کے سیشن میں سال 2021کے اولمپک کھیلوں اور سال 2026کی یوتھ اولمپک کھیلوں اور سال 2030کی ایشین گیمز میں میزبان ملک بننے کے لئے بولی لگائے گا۔
انڈین اولمپک ایسوسی ایشن 2026یا 2030ء کی اولمپک گیمز کی میزبانی کرنے کے لئے فی الوقت حکمت عملی مرتب کررہی ہے۔ایسوسی ایشن کا خیال ہے کہ چونکہ بھارت میں کامیابی کے ساتھ کامن ویلتھ گیمز کا انعقاد ہوا ہے، اسلئے اب بھارت کے لیے اولمپک کھیلوں کا انعقاد آسان ثابت ہوگا۔
جاپان رواں سال کے اولمپک اور پیرا اولمپک کھیلوں کی میزبانی کرے گا۔ ابتدائی تخمینہ 1,85,000کروڑ سے تین گنا زیادہ ہے۔اس تخمینے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سال 2030ء میں اولمپک کھیلوں کی میزبانی کرنے کیلئے اخراجات کتنے زیادہ ہونگے ۔
آسٹریلیا، انڈونیشیا،جنوبی اور شمالی کوریا اور جرمنی بھی سال 2030ء کی اولمپک کھیلوں کی میزبانی کے لئے بے تاب ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کھیلوں کے 16ایونٹس کو منعقد کرانے میں دلچسپی کا اظہار کرچکا ہے ۔اس لئے یہ حیران کن ہے کہ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن نتائج کی پرواہ کئے بغیر کس رفتار سے میزبانی کے مواقعے حاصل کرنے کے پیچھے پڑی ہے۔
سیول ، بریکلونا اور لندن جیسے کئی ممالک کو کھیل کود کے اہم ایونٹس کا انعقاد کرنے کے بعد انفراسٹکچرقائم کرنے ، سیاحت میں فروغ حاصل کرنے اور عالمی سطح پر وقار حاصل کرنے جیسے فوائد ملے ہیں۔
اولمپک کھیلوں کی میزبانی کرنے کے نقصانات بھی ہیں اور اس بات سے کوئی تردید نہیں کرسکتا کہ میزبانی بھاری اخراجات کا متقاضی عمل ہے۔ کینڈا نے جب سال 1976ء مونٹریل ورلڈ سپورٹ کی وقار کے ساتھ میزبانی کی تو اس کے نتیجے میں ہونے والا خسارے سے ملک کو چار دہائیوں تک پریشان ہونا پڑا۔
جب سال 2004میں جرمنی نے اتھنز اولمپک کا انعقاد کرتے ہوئے خطیر اخراجات کے وسیع پیمانے پر انتظامات کیے اور اس کے مالی اثرات کا وزن ابھی تک اس ملک پر ہے۔
جنوبی افریقہ اور برازیل میں فی فا ورلڈکپ کھیل کے لیے خصوصی اسٹیڈیم تعمیرکیے گئے تھے لیکن ورلڈکپ کے کھیلوں کے اختتام کے بعد یہ اب تک سنسان پڑے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کہ بھارت میں دس سال قبل کامن ویلتھ گیمز کی میزبانی کے لئے خصوصی طور پر انفراسٹکچر تعمیر کیا گیا اور تقریباً یہ سارا انفراسٹکچر تب سے استعمال ہی نہیں ہوسکا ہے۔ اُس وقت کامن ویلتھ گیمز کی ابتدائی اور اختتامی تقریبات کے انعقاد کیلئے جواہر لعل نہرو سٹیڈیم کی تجدید پر 960کروڑ روپے خرچ کئے گئے ۔
تب سے آج تک یہ اسٹیدیم نہ ہی استعمال ہوا ہے اور نہ ہی اسکی دیکھ بھال ہوپارہی ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ960کروڑ روپے کے اخراجات ضائع ہوگئے ۔اس وقت انفراسٹکچر قائم کرنے کے لئے ہزاروں کروڑ روپے خرچ کئے گئے ۔تب سے یہ سارا انفراسٹکچر بے کار پڑا ہے ۔بلکہ الٹا اسکی دیکھ بھارل میں مزید اخراجات ہورہے ہیں ، جسکی وجہ سے یہ انفراسٹکچر ایک سفید ہاتھی ثابت ہورہا ہے۔
اسی طرح کے تجربات دوسرے ممالک میں بھی ہوئے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ سال 2010ء کے کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوں کے حوالے سے جو کرپشن سکینڈل طشت ازبام ہوا تھا، اس نے دلی کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔پتہ نہیں انڈین اولمپک ایسوسی ایشن اور مرکزی سرکار نے ایسے کون سے اقدامات کئے ہیں ، جن کے نتیجے میں ماضی کے یہ تجربات دہرائے نہیں جائیں گے۔
ماضی میں رونما ہونے والی ان تمام خرابیوں کے باوجود انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کی جانب سے کھیل کود کے ایونٹس کی میزبانی کے لئے بے تابی دیکھی جارہی ہے۔
چار سال قبل ریو اولمپکس میں انڈین برصغیر کو محض چار میڈل حاصل ہوئے تھے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ 65کروڑ کی آبادی کیلئے صرف ایک میڈل۔
جنوبی ایشیاء کی کھیلوں جیسے کی شوٹنگ، باکسنگ،جوڈو، ٹیک ونڈو جیسے کھیلوں میں بھارت بڑے پیمانے پر میڈل حاصل کرتا ہے لیکن ورلڈ اتھلٹکس چمپئن شب اور اولمپک جیسے مقابلوں میں ان کھیلوں میں بھی بھارت حسب معمول کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرپایا۔
تاہم توقع ہے کہ انٹرنیشنل اتھلیٹک چمپئن شپ میں کھیلوں کے بعض ایونٹس میں انڈیا مخالفین کو سخت مقابلے سے دوچار کرپائے گا۔ اگست 2012ء میں اُس وقت کے کھیل کود کے مرکزی وزیر اجے میکن نے خود کہا تھا کہ بھارت سال 2020کے اولمپکس میں کم از کم 25میڈل حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسی طرح کے خیال کا اظہار موجودہ مرکزی سپورٹس وزیر کرن رِجو نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سال 2024ء اور سال 2028ء کے اولمپکس میں بھارت گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ٹاپ10ممالک کی فہرست میں ہوگا۔اگر یہ خواب پورا کرنا ہے تو حکومت کی توجہ کھیلوں کی میزبانی کے بجائے کھلاڑیوں کی تربیت پر مرکوز ہونی چاہیے۔
ماہرین کافی عرصے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اچھے کھلاڑیوں کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ اسکولوں کی سطح سے ہی تربیت کی جائے ۔چین جیسے ملک جس نے ساڑھے آٹھ ملین سے زیادہ ورزش سینٹراور تین ہزار سے زیادہ کھیل کود کے خصوصی مراکز قائم کئے ہیں۔اور بچوں کی قابلیت کو تلاش کرنے کا عمل وہ چار سال کی عمر میں ہی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
امریکہ میں نیشنل کالیگیٹ اتھیلیٹ ایسوسی ایشن کالجوں میں ہی طلبہ میں اتھلیٹک ازم کو فروغ دے رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر تغمات حاصل کرنے میں کامیاب ہے ۔
اس کے برعکس بھارت کے اسکولوں اور کالجوں میں فیزکل ٹرینرس اور اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے تعلیم حاصل کرنے کے حق کے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ جن کے مطابق طلبا کے لئے کھیل کے میدان ، کھیل کود کیلئے وقت اور سازو سامان بہم پہنچانا ضروری ہے۔اس کے باوجود ہمارے ملک میں کھیل کود اور اتھلیٹکس سے جڑے ہونے کی لمبی تاریخ ہے۔
ہم تب تک کسی کھیل کود کے ایونٹ کا انعقاد نہیں کرسکتے ہیں، جب تک ہم وسیع پیمانے پر موجود قابل، ہنرمند اور ذرائع کا صیح اور بھرپور استعمال نہیں کریں گے۔