ETV Bharat / sports

Syed Shahid Hakim Birth Anniversary لیجنڈ فٹبالر سیّد شاہد حکیم کی خدمات کو بھارت کبھی فراموش نہیں کر سکتا

سابق بھارتی فٹ بالر اور 1960 کے روم اولمپکس میں حصہ لینے والی ٹیم کے رکن سید شاہد حکیم کا آج یوم پیدائش ہے۔ سید شاہد حکیم 23 جون 1939 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عبدالرحیم بھی اپنے زمانے کے مشہور فٹبالر اور کوچ رہے۔ Syed Shahid Hakim Birth Place

author img

By

Published : Jun 23, 2023, 10:03 AM IST

لیجنڈ فٹبالر سیّد شاہد حکیم کی خدمات کو بھارت کبھی فراموش نہیں کر سکتا
لیجنڈ فٹبالر سیّد شاہد حکیم کی خدمات کو بھارت کبھی فراموش نہیں کر سکتا

نئی دہلی: دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہوں گے جن میں خداداد صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ سید شاہد حکیم یہ وہ نام ہے جس نے کھیل کا میدان، طبی شعبہ اور فضائیہ جیسی خدمات میں اپنی پوری زندگی ملک کے نام وقف کردی۔ جنہوں نے ملک میں فٹبال کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سید شاہد حکیم پوری فٹ بال برادری کے لیے ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اس مایہ ناز شخصیت نے حیدرآباد اور ہندوستانی فٹ بال کے لئے ایک بہترین مڈفیلڈر کھلاڑی، ریفری اور کوچ کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں ،جنہیں ملک کبھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سید شاہد حکیم 23 جون 1939 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عبدالرحیم بھی اپنے زمانے کے مشہور فٹبالر اور کوچ رہے ہیں۔ بحیثیت ایک کھلاڑی حکیم کی صلاحیتیں کم عمری میں ہی عیاں ہونے لگی تھیں۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے خاندان اور ملک کے لئے ایک عظیم اثاثہ ثابت ہوئی۔ آل سینٹس ایچ ایس ، نظام کالج اور پھر عثمانیہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔اس زمانے میں ان کی تعلیم کی سطح بہت سے دوسرے فٹبالرز سے بالاتررہی۔ ان میں نوعمری میں ہی وہ خوبی پیدا ہوگئی تھی جس نے انہیں غیر ملکیوں کے ساتھ آسانی سے بات چیت کرنے اور ہر چیز سیکھنے کے قابل بنادیا تھا۔

انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً 50 برس مجموعی طور پر ہندوستانی فضائیہ اور ہندوستانی فٹ بال اور حکمت کے لئے وقف کئے ۔ سید شاہد نے ہندستانی فضائیہ میں ملازمت کی ۔ انہیں ہندوستانی فضائیہ میں اسکواڈرن لیڈر کے طور پر بھی تعینات کیا گیا ۔والدحکمت سے تعلق رکھتے تھے تو بطور حکیم والد کے ساتھ بھی اس پیشہ سے وابستہ رہے۔ پھر فٹبال سے غیر معمولی دلچسپی بھی رہی۔ اسی بنا پر ان میں کثیر الجہتی خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ لہذا ایک ہی شخص میں اس طرح کی صلاحیتیں ہونا ، دیگر شخصیات سےا س کو ممتاز کرتی ہیں۔ اس دوران انہوں بحیثیت ایک کھلاڑی ، اسسٹنٹ کوچ ، ہیڈ کوچ ، ریفری اور منیجر کے طور پر مختلف کردار ادا کرتے ہوئے ہندوستانی فٹ بال کی5 دہائیوں تک خدمت انجام دیں ۔ فٹ بال کی ایک مشہور شخصیت ہونے کے علاوہ ، انہوں نے ہندوستانی فضائیہ میں افسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ سید شاہد حکیم کا تعلق اس دور سے تھا جب حیدرآباد ہندوستانی فٹ بال کے عروج پر تھا۔ سید حکیم ہندوستان کے عظیم کھلاڑیوں کے ہم عصر رہے۔ ان کے ساتھیوں میں معروف گول کیپر پیٹر تھنگ راج ، ڈی کنن ، ایس اے لطیف ، یوسف خان ، ایس نارائنن ، ایچ ایچ حمید اور دوسرے معروف کھلاڑی شامل تھے۔ ان تمام کھلاڑیوں کا تعلق حیدرآباد اور سکندرآباد سے تھا۔

شاہد ایک سنٹرل مڈفیلڈر کے طور پر کھیلتے تھے ۔ درحقیقت یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو فٹ بال کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ان کے علم اور مہارت کا مقابلہ کر سکتے تھے۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایشیائی کھیلوں اور 1956 کے میلبورن اولمپکس کے سیمی فائنل میں ہندوستان کو دو گولڈ میڈل دلائے ۔ انہیں 1960 کے روم میں ہونے والے اولمپک گیمز کے لیے ہندوستانی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہ آخری موقع تھا جب ہندوستان نے اولمپک گیمز کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اگرچہ ہندوستان ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے میں داخل ہونے میں آسانی سے ناکام رہا ، لیکن یہ کھیل حکیم کے لیے سیکھنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ سال 1950 کی دہائی کے آخر میں شاہد اپنے کھیل کے عروج پر تھے۔ وہ حیدرآباد اسٹیٹ ٹیم کے رکن تھے جس نے 1957 میں سنتوش ٹرافی جیتی تھی۔ ان کی شاندار صلاحیتوں اور ہندوستانی فٹ بال میں ان کی بڑھتی ہوئی حیثیت کی وجہ سے ، انہیں جکارتہ ، سنگاپور اور ملائیشیا میں ہونے والے پری اولمپک مقابلوں میں ہندوستان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا ۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے فٹ بال کھلاڑی سید شاہد حکیم کا انتقال

ایس ایس حکیم کے بین الاقوامی کیریئر کی خاص بات 1960 کے روم اولمپکس تھی ، جب یہ حیدرآبادی نوجوان ہندوستانی ٹیم کا رکن تھا جس کی کوچنگ ان کے والد نے کی تھی۔ایس ایس حکیم نے ایک فٹبالر اور کوچ کی حیثیت سے ہندوستان میں فٹ بال کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے کھیل کے دنوں کے دوران .حکیم نے 1960 میں سروسز فٹ بال ٹیم کے لیے اپنے کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے سنتوش ٹرافی جیت لی اور 1966 تک کھیلتے رہے۔ حیدرآباد کے اس نوجوان کھلاڑی کی بدولت ہندوستانی فٹ بال کو کئی باراپنا پرچم بلند کرنے میں بہت مدد ملی۔ ہندوستانی فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد ، وہ ڈیفنس سروسز ٹیم کے لیے کھیلے اور آل انڈیا سروسز ٹیم کے کپتان مقرر ہوئے۔ وہ سٹی کالج اولڈ بوائز اور کلب کی سطح پر انڈین ایئر فورس کے لیے بھی کھیلے۔ ہندوستان روم میں گروپ مرحلے کو عبور کرنے میں ناکام رہا ، لیکن فرانس جیسی مضبوط ٹیم کو 1-1 سے ڈرا پر روک دیا ۔

ہندوستانی قومی ٹیم کے سابق اسسٹنٹ کوچ حکیم نے 1998 میں مہندرا اینڈ مہندرا کی ڈیورنڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے منیجر کے طور پر خدمات انجام دیں اور سالگوکر اور بنگال ممبئی ایف سی کی کوچنگ بھی کی۔ قطر میں 1988 کے اے ایف سی ایشین کپ میں بھی اپنے فرائض انجام دیئے۔ ہندوستانی فضائیہ کے ایک سابق اسکواڈرن لیڈر، حکیم ، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا، کولکتہ کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ ' فیفا ' کے بین الاقوامی ریفری بھی رہے ۔ شاہد، ایئر فورس کے سابق اسکواڈرن لیڈر، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی اپنے فرائض انجام دیئے۔ وہ انڈر 17 فیفا ورلڈ کپ سے قبل پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی تھے۔ ایک کھلاڑی کے طور پر کھیل سے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے کثیر الجہتی صلاحیتوں کی بنیادپر ہندوستانی فٹ بال کی خدمت جاری رکھی۔ اپنے تجربے اور بہترین صلاحیتوں کے سبب وہ ایک مشہور ریفری بن گئے جو ہندوستان کے بہترین ریفریوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔۔ انہوں نے 1970 کی دہائی میں شروع ہونے والے کئی برسوں تک ریفری کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔

سال 1974 میں، وہ فیفا ریفریز پینل کے رکن منتخب ہوئے، جو ایک ہندوستانی ریفری کے لیے بڑا اعزاز ہے۔ انہوں نے 33 بین الاقوامی میچوں میں امپائرنگ بھی کی جو ایک جو قابل ستائش ریکارڈ ہے۔ اس کے بعد ، حکیم ایک معروف کوچ بن گئے اور 1980 سے 1982 تک مرڈیکا کپ اور دہلی ایشین گیمز کے لیے دیگر کوچز کے ساتھ ہندوستانی ٹیم کی کوچنگ کی۔ حکیم ایک لیجنڈ فٹبالر تھے جو کئی نسلوں کے لیے تحریک ثابت ہوئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ہندوستانی فٹ بال کی سنہری نسل کے ایک اہم رکن تھے ۔ سابق صدرجمہوریہ ہند رام ناتھ کووندنے29 اگست 2017 کو نئی دہلی میں راشٹرپتی بھون میں ایک شاندار تقریب میں، سید شاہد حکیم کو فٹ بال کے لیے دھیان چند ایوارڈ 2017 پیش کیا ۔ سال1960 کے روم اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے ایس ایس حکیم فالج کا شکار ہونے کے بعد گلبرگہ کے ایک اسپتال میں داخل کرائے گئے۔82 برس کی عمر میں میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی موت نے ہندوستانی فٹ بال میں ایک ایسا خلا پیدا کردیا ہے جو شاید کبھی پُر نہیں ہوگا۔

یو این آئی

نئی دہلی: دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہوں گے جن میں خداداد صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ سید شاہد حکیم یہ وہ نام ہے جس نے کھیل کا میدان، طبی شعبہ اور فضائیہ جیسی خدمات میں اپنی پوری زندگی ملک کے نام وقف کردی۔ جنہوں نے ملک میں فٹبال کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سید شاہد حکیم پوری فٹ بال برادری کے لیے ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اس مایہ ناز شخصیت نے حیدرآباد اور ہندوستانی فٹ بال کے لئے ایک بہترین مڈفیلڈر کھلاڑی، ریفری اور کوچ کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں ،جنہیں ملک کبھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سید شاہد حکیم 23 جون 1939 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عبدالرحیم بھی اپنے زمانے کے مشہور فٹبالر اور کوچ رہے ہیں۔ بحیثیت ایک کھلاڑی حکیم کی صلاحیتیں کم عمری میں ہی عیاں ہونے لگی تھیں۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے خاندان اور ملک کے لئے ایک عظیم اثاثہ ثابت ہوئی۔ آل سینٹس ایچ ایس ، نظام کالج اور پھر عثمانیہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔اس زمانے میں ان کی تعلیم کی سطح بہت سے دوسرے فٹبالرز سے بالاتررہی۔ ان میں نوعمری میں ہی وہ خوبی پیدا ہوگئی تھی جس نے انہیں غیر ملکیوں کے ساتھ آسانی سے بات چیت کرنے اور ہر چیز سیکھنے کے قابل بنادیا تھا۔

انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً 50 برس مجموعی طور پر ہندوستانی فضائیہ اور ہندوستانی فٹ بال اور حکمت کے لئے وقف کئے ۔ سید شاہد نے ہندستانی فضائیہ میں ملازمت کی ۔ انہیں ہندوستانی فضائیہ میں اسکواڈرن لیڈر کے طور پر بھی تعینات کیا گیا ۔والدحکمت سے تعلق رکھتے تھے تو بطور حکیم والد کے ساتھ بھی اس پیشہ سے وابستہ رہے۔ پھر فٹبال سے غیر معمولی دلچسپی بھی رہی۔ اسی بنا پر ان میں کثیر الجہتی خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ لہذا ایک ہی شخص میں اس طرح کی صلاحیتیں ہونا ، دیگر شخصیات سےا س کو ممتاز کرتی ہیں۔ اس دوران انہوں بحیثیت ایک کھلاڑی ، اسسٹنٹ کوچ ، ہیڈ کوچ ، ریفری اور منیجر کے طور پر مختلف کردار ادا کرتے ہوئے ہندوستانی فٹ بال کی5 دہائیوں تک خدمت انجام دیں ۔ فٹ بال کی ایک مشہور شخصیت ہونے کے علاوہ ، انہوں نے ہندوستانی فضائیہ میں افسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ سید شاہد حکیم کا تعلق اس دور سے تھا جب حیدرآباد ہندوستانی فٹ بال کے عروج پر تھا۔ سید حکیم ہندوستان کے عظیم کھلاڑیوں کے ہم عصر رہے۔ ان کے ساتھیوں میں معروف گول کیپر پیٹر تھنگ راج ، ڈی کنن ، ایس اے لطیف ، یوسف خان ، ایس نارائنن ، ایچ ایچ حمید اور دوسرے معروف کھلاڑی شامل تھے۔ ان تمام کھلاڑیوں کا تعلق حیدرآباد اور سکندرآباد سے تھا۔

شاہد ایک سنٹرل مڈفیلڈر کے طور پر کھیلتے تھے ۔ درحقیقت یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو فٹ بال کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ان کے علم اور مہارت کا مقابلہ کر سکتے تھے۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایشیائی کھیلوں اور 1956 کے میلبورن اولمپکس کے سیمی فائنل میں ہندوستان کو دو گولڈ میڈل دلائے ۔ انہیں 1960 کے روم میں ہونے والے اولمپک گیمز کے لیے ہندوستانی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہ آخری موقع تھا جب ہندوستان نے اولمپک گیمز کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اگرچہ ہندوستان ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے میں داخل ہونے میں آسانی سے ناکام رہا ، لیکن یہ کھیل حکیم کے لیے سیکھنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ سال 1950 کی دہائی کے آخر میں شاہد اپنے کھیل کے عروج پر تھے۔ وہ حیدرآباد اسٹیٹ ٹیم کے رکن تھے جس نے 1957 میں سنتوش ٹرافی جیتی تھی۔ ان کی شاندار صلاحیتوں اور ہندوستانی فٹ بال میں ان کی بڑھتی ہوئی حیثیت کی وجہ سے ، انہیں جکارتہ ، سنگاپور اور ملائیشیا میں ہونے والے پری اولمپک مقابلوں میں ہندوستان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا ۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے فٹ بال کھلاڑی سید شاہد حکیم کا انتقال

ایس ایس حکیم کے بین الاقوامی کیریئر کی خاص بات 1960 کے روم اولمپکس تھی ، جب یہ حیدرآبادی نوجوان ہندوستانی ٹیم کا رکن تھا جس کی کوچنگ ان کے والد نے کی تھی۔ایس ایس حکیم نے ایک فٹبالر اور کوچ کی حیثیت سے ہندوستان میں فٹ بال کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے کھیل کے دنوں کے دوران .حکیم نے 1960 میں سروسز فٹ بال ٹیم کے لیے اپنے کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے سنتوش ٹرافی جیت لی اور 1966 تک کھیلتے رہے۔ حیدرآباد کے اس نوجوان کھلاڑی کی بدولت ہندوستانی فٹ بال کو کئی باراپنا پرچم بلند کرنے میں بہت مدد ملی۔ ہندوستانی فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد ، وہ ڈیفنس سروسز ٹیم کے لیے کھیلے اور آل انڈیا سروسز ٹیم کے کپتان مقرر ہوئے۔ وہ سٹی کالج اولڈ بوائز اور کلب کی سطح پر انڈین ایئر فورس کے لیے بھی کھیلے۔ ہندوستان روم میں گروپ مرحلے کو عبور کرنے میں ناکام رہا ، لیکن فرانس جیسی مضبوط ٹیم کو 1-1 سے ڈرا پر روک دیا ۔

ہندوستانی قومی ٹیم کے سابق اسسٹنٹ کوچ حکیم نے 1998 میں مہندرا اینڈ مہندرا کی ڈیورنڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے منیجر کے طور پر خدمات انجام دیں اور سالگوکر اور بنگال ممبئی ایف سی کی کوچنگ بھی کی۔ قطر میں 1988 کے اے ایف سی ایشین کپ میں بھی اپنے فرائض انجام دیئے۔ ہندوستانی فضائیہ کے ایک سابق اسکواڈرن لیڈر، حکیم ، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا، کولکتہ کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ ' فیفا ' کے بین الاقوامی ریفری بھی رہے ۔ شاہد، ایئر فورس کے سابق اسکواڈرن لیڈر، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی اپنے فرائض انجام دیئے۔ وہ انڈر 17 فیفا ورلڈ کپ سے قبل پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی تھے۔ ایک کھلاڑی کے طور پر کھیل سے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے کثیر الجہتی صلاحیتوں کی بنیادپر ہندوستانی فٹ بال کی خدمت جاری رکھی۔ اپنے تجربے اور بہترین صلاحیتوں کے سبب وہ ایک مشہور ریفری بن گئے جو ہندوستان کے بہترین ریفریوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔۔ انہوں نے 1970 کی دہائی میں شروع ہونے والے کئی برسوں تک ریفری کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔

سال 1974 میں، وہ فیفا ریفریز پینل کے رکن منتخب ہوئے، جو ایک ہندوستانی ریفری کے لیے بڑا اعزاز ہے۔ انہوں نے 33 بین الاقوامی میچوں میں امپائرنگ بھی کی جو ایک جو قابل ستائش ریکارڈ ہے۔ اس کے بعد ، حکیم ایک معروف کوچ بن گئے اور 1980 سے 1982 تک مرڈیکا کپ اور دہلی ایشین گیمز کے لیے دیگر کوچز کے ساتھ ہندوستانی ٹیم کی کوچنگ کی۔ حکیم ایک لیجنڈ فٹبالر تھے جو کئی نسلوں کے لیے تحریک ثابت ہوئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ہندوستانی فٹ بال کی سنہری نسل کے ایک اہم رکن تھے ۔ سابق صدرجمہوریہ ہند رام ناتھ کووندنے29 اگست 2017 کو نئی دہلی میں راشٹرپتی بھون میں ایک شاندار تقریب میں، سید شاہد حکیم کو فٹ بال کے لیے دھیان چند ایوارڈ 2017 پیش کیا ۔ سال1960 کے روم اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے ایس ایس حکیم فالج کا شکار ہونے کے بعد گلبرگہ کے ایک اسپتال میں داخل کرائے گئے۔82 برس کی عمر میں میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی موت نے ہندوستانی فٹ بال میں ایک ایسا خلا پیدا کردیا ہے جو شاید کبھی پُر نہیں ہوگا۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.