ETV Bharat / sports

Olympics in India بھارت میں اولمپکس کی میزبانی کرنا کتنا بڑا چیلنج ہوگا

بھارت 2036 کے اولمپک مقابلوں کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ اعزاز حاصل کرنے کیلئے ایک موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت ان ممالک کی فہرست میں آجائے جو اولمپک جیسے عالمی مقابلوں میں بہترین کارکردگی کا مطاہرہ کرتے ہیں۔ کثیر الاشاعت تیلگو روزنامہ ایناڈو نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اولمپک کھیلوں کی میزبانی کا دعویٰ کرنا بڑی بات ہے اس لئے اس کے لئے ہمہ وقتی طور تیاری میں جٹ جانے کی ضرورت ہے۔

indian ambition to host olympics
بھارت میں اولمپکس کی میزبانی کرنا کتنا بڑا چیلنج ہوگا
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 17, 2023, 6:29 PM IST

حیدرآباد: ہر چار سال بعد اولمپک کے عالمی کھیل مقابلے اربوں پرجوش شائقین اور کھیل تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جن میں کھلاڑی اپنے غیر معمولی فن کا ہی مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ عالمی اتحاد کا دلکش نظارہ بھی پیش کرتے ہیں۔ دینا ایک خاندان ہے یا جسے بھارت میں واسودیو کٹمبکم کہتے ہیں کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے تقریباً 140 کروڑ ہندوستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے باوقار اولمپک کھیلوں کو ہندوستان میں لانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔

یہ اعلان ممبئی میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی یا آئی او سی کے سربراہی اجلاس کے دوران کیا گیا، جہاں انہوں نے 2036 کے اولمپکس کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے ملک کی خواہش کا اعلان کیا۔ جیسا کہ دنیا اگلے سال پیرس میں ہونے والے اولمپک گیمز اور 2028 میں لاس اینجلس میں ہونے والے ورلڈ گیمز کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہے۔ یہ دلچسپ اعلان سامنے آیا کہ آسٹریلیا کا شہر برسبین 2032 کے اولمپک گیمز کا قابل فخر میزبان ہوگا۔

گزشتہ دسمبر میں مرکزی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے کہا تھا کہ بھارت مستقبل میں اولمپک کھیلوں کی میزبانی کرنے کا خواہشمند ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے گجرات کے شہر احمد آباد کا نام لیا تھا۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان کو انڈونیشیا، جرمنی اور قطر جیسے ممالک سے زبردست مقابلے کا سامنا ہے، جو سبھی اس غیر معمولی کھیل ایونٹ کو منعقد کرنے کے مضبوط دعویدار ہیں۔

اولمپکس کا انعقاد جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اسکے لئے مالی مضبوطی شرطِ اول ہے جس میں وسیع پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بہتر شہری سہولیات، بہتر بجلی اور پانی کی فراہمی کا نظام، مؤثر ویسٹ مینجمنٹ، اور صفائی کے اعلیٰ معیارات شامل ہیں۔ ایسے بنیادی ڈھانچے کی تکمیل 200 سے زیادہ ممالک کے ہزاروں کھلاڑیوں اور لاتعداد مہمانوں کے لیے مہمان نوازی اور کارآمد ماحول پیدا کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔

حالیہ ٹوکیو اولمپکس کے دوران کیے گئے بھاری اخراجات پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کھیل منعقد کرنے کیلئے کس قسم کی تیاریاں لازمی ہیں۔ ابتدائی طور پر 700 کروڑ امریکی ڈالر (تقریباً 58,000 کروڑ روپے) کا تخمینہ لگایا گیا، جو بالآخر دوگنا ہوگیا۔ یہ بھی لازمی ہے کہ مالیاتی احتیاط اور شفافیت کو مدنظر رکھا جائے۔ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے، جیسے کہ بدعنوانی کا افسوسناک واقعہ جس نے نئی دہلی میں 2010 کے کامن ویلتھ گیمز کو نقصان پہنچایا۔

مہمان نوازی کے بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھنا قابل ستائش ہے، لیکن کھیلوں اور تمغوں کے حصول میں بہترین کارکردگی کے لیے معیارات قائم کرنا اور ان کو برقرار رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ سوا سو قابل ایتھلیٹس پر مشتمل ہندوستانی وفد 2021 میں ٹوکیو گیا اور سات تمغوں کے ساتھ وطن واپس لوٹا، جن میں ایک سونے اور دو چاندی کے تمغے تھے۔ اس قابل ستائش کامیابی نے مجموعی درجہ بندی میں ہندوستان کی پوزیشن کو 48 ویں مقام پر پہنچا دیا۔

تاہم، جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور چین پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے ممالک کے طور پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں، اور میزبان جاپان نے 27 طلائی، 14 چاندی، اور 17 کانسی کے تمغوں کے ساتھ تیسرا مقام حاصل کیا۔ اس پس منظر میں ہندوستان کی خواہش کو دیکھا جانا چاہئے۔ جاپان سے دس گنا آبادی والے ملک کے دستے کے لیے 2024 کے پیرس اولمپکس میں دو ہندسوں میں تمغے حاصل کرنے کی امید ہونی چاہئے۔ گو کہ ہندوستان کے پاس جنوبی ایشیائی کھیلوں میں اپنی بالادستی کا دعویٰ ہے، لیکن اس کی اولمپک پرفارمنس کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کیلئے کوششیں کرنا ناگزیر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

صرف ان عالمی شہرت یافتہ مقابلوں کی میزبانی کا شرف حاصل کرنا ہی مطمح نظر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کھیل مقابلوں میں اپنی کارکردگی بہترین انداز سے پیش کرنا بڑا چیلنج ہے۔ ترنگا فخر سے بلند ہونا چاہیے، خاص طور پر اولمپک اسٹیج پر ہندوستان کو کھیلوں کے پاور ہاؤس کے طور پر اپنا وجود منوانا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے ایک مضبوط بنیاد قائم کی جائے اور کھیل کے تمام شعبوں میں جامع تربیت کی جائے۔

اس وقت ہندوستانی اولمپک ایسو ایشن یا آئی او اے تنازعات میں گھری ہوئی ہے جس سے ملک کا وقار مجروح ہوا ہے۔ حال ہی میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے انڈین ایسوسی ایشن کو اس بات پر ہدف تنقید بنایا کہ یہ تنظیم ایک کل وقتی سی ای او کا تقرر کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ انڈین اولمپک ایسو سی ایشن کے صدر کا تقرر 2025 تک ہونا چاہئے جس کے فوراً بعد 2036 کی کھیلوں کی میزبانی کا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے۔

ہندوستان کے میزبانی کے کردار سے قطع نظر، ان عالمی مقابلوں میں سرفہرست فاتحین کے درمیان ملک کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے ایک فعال حکمت عملی کو فوری طور پر لاگو کیا جانا چاہیے۔ اس حکمت عملی میں ایلیمنٹری اسکولوں سے لے کر خصوصی کھیلوں کی یونیورسٹیوں تک کھیلوں کی ترقی کے منصوبوں کو تیز کرنا، کھیلوں کے انسٹرکٹرز کی کمی کو دور کرنا، ملک بھر میں ضلعی مراکز میں اعلیٰ درجے کی کھیلوں کی سہولیات کا قیام، عالمی معیار کے ٹرینرز کی بھرتی، پیدائشی صلاحیت کے ساتھ غیر استعمال شدہ ٹیلنٹ کی نشاندہی کرنا، اور انہیں فراہم کرنا شامل ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اولمپک مقابلوں کے بعد کے اسٹیڈیموں کے استعمال پر توجہ دے تاکہ انہیں قومی خزانے پر سفید ہاتھیوں کی طرح ثابت نہ ہوجائیں۔

حیدرآباد: ہر چار سال بعد اولمپک کے عالمی کھیل مقابلے اربوں پرجوش شائقین اور کھیل تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جن میں کھلاڑی اپنے غیر معمولی فن کا ہی مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ عالمی اتحاد کا دلکش نظارہ بھی پیش کرتے ہیں۔ دینا ایک خاندان ہے یا جسے بھارت میں واسودیو کٹمبکم کہتے ہیں کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے تقریباً 140 کروڑ ہندوستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے باوقار اولمپک کھیلوں کو ہندوستان میں لانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔

یہ اعلان ممبئی میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی یا آئی او سی کے سربراہی اجلاس کے دوران کیا گیا، جہاں انہوں نے 2036 کے اولمپکس کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے ملک کی خواہش کا اعلان کیا۔ جیسا کہ دنیا اگلے سال پیرس میں ہونے والے اولمپک گیمز اور 2028 میں لاس اینجلس میں ہونے والے ورلڈ گیمز کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہے۔ یہ دلچسپ اعلان سامنے آیا کہ آسٹریلیا کا شہر برسبین 2032 کے اولمپک گیمز کا قابل فخر میزبان ہوگا۔

گزشتہ دسمبر میں مرکزی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے کہا تھا کہ بھارت مستقبل میں اولمپک کھیلوں کی میزبانی کرنے کا خواہشمند ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے گجرات کے شہر احمد آباد کا نام لیا تھا۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان کو انڈونیشیا، جرمنی اور قطر جیسے ممالک سے زبردست مقابلے کا سامنا ہے، جو سبھی اس غیر معمولی کھیل ایونٹ کو منعقد کرنے کے مضبوط دعویدار ہیں۔

اولمپکس کا انعقاد جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اسکے لئے مالی مضبوطی شرطِ اول ہے جس میں وسیع پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بہتر شہری سہولیات، بہتر بجلی اور پانی کی فراہمی کا نظام، مؤثر ویسٹ مینجمنٹ، اور صفائی کے اعلیٰ معیارات شامل ہیں۔ ایسے بنیادی ڈھانچے کی تکمیل 200 سے زیادہ ممالک کے ہزاروں کھلاڑیوں اور لاتعداد مہمانوں کے لیے مہمان نوازی اور کارآمد ماحول پیدا کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔

حالیہ ٹوکیو اولمپکس کے دوران کیے گئے بھاری اخراجات پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کھیل منعقد کرنے کیلئے کس قسم کی تیاریاں لازمی ہیں۔ ابتدائی طور پر 700 کروڑ امریکی ڈالر (تقریباً 58,000 کروڑ روپے) کا تخمینہ لگایا گیا، جو بالآخر دوگنا ہوگیا۔ یہ بھی لازمی ہے کہ مالیاتی احتیاط اور شفافیت کو مدنظر رکھا جائے۔ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے، جیسے کہ بدعنوانی کا افسوسناک واقعہ جس نے نئی دہلی میں 2010 کے کامن ویلتھ گیمز کو نقصان پہنچایا۔

مہمان نوازی کے بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھنا قابل ستائش ہے، لیکن کھیلوں اور تمغوں کے حصول میں بہترین کارکردگی کے لیے معیارات قائم کرنا اور ان کو برقرار رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ سوا سو قابل ایتھلیٹس پر مشتمل ہندوستانی وفد 2021 میں ٹوکیو گیا اور سات تمغوں کے ساتھ وطن واپس لوٹا، جن میں ایک سونے اور دو چاندی کے تمغے تھے۔ اس قابل ستائش کامیابی نے مجموعی درجہ بندی میں ہندوستان کی پوزیشن کو 48 ویں مقام پر پہنچا دیا۔

تاہم، جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور چین پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے ممالک کے طور پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں، اور میزبان جاپان نے 27 طلائی، 14 چاندی، اور 17 کانسی کے تمغوں کے ساتھ تیسرا مقام حاصل کیا۔ اس پس منظر میں ہندوستان کی خواہش کو دیکھا جانا چاہئے۔ جاپان سے دس گنا آبادی والے ملک کے دستے کے لیے 2024 کے پیرس اولمپکس میں دو ہندسوں میں تمغے حاصل کرنے کی امید ہونی چاہئے۔ گو کہ ہندوستان کے پاس جنوبی ایشیائی کھیلوں میں اپنی بالادستی کا دعویٰ ہے، لیکن اس کی اولمپک پرفارمنس کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کیلئے کوششیں کرنا ناگزیر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

صرف ان عالمی شہرت یافتہ مقابلوں کی میزبانی کا شرف حاصل کرنا ہی مطمح نظر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کھیل مقابلوں میں اپنی کارکردگی بہترین انداز سے پیش کرنا بڑا چیلنج ہے۔ ترنگا فخر سے بلند ہونا چاہیے، خاص طور پر اولمپک اسٹیج پر ہندوستان کو کھیلوں کے پاور ہاؤس کے طور پر اپنا وجود منوانا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے ایک مضبوط بنیاد قائم کی جائے اور کھیل کے تمام شعبوں میں جامع تربیت کی جائے۔

اس وقت ہندوستانی اولمپک ایسو ایشن یا آئی او اے تنازعات میں گھری ہوئی ہے جس سے ملک کا وقار مجروح ہوا ہے۔ حال ہی میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے انڈین ایسوسی ایشن کو اس بات پر ہدف تنقید بنایا کہ یہ تنظیم ایک کل وقتی سی ای او کا تقرر کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ انڈین اولمپک ایسو سی ایشن کے صدر کا تقرر 2025 تک ہونا چاہئے جس کے فوراً بعد 2036 کی کھیلوں کی میزبانی کا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے۔

ہندوستان کے میزبانی کے کردار سے قطع نظر، ان عالمی مقابلوں میں سرفہرست فاتحین کے درمیان ملک کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے ایک فعال حکمت عملی کو فوری طور پر لاگو کیا جانا چاہیے۔ اس حکمت عملی میں ایلیمنٹری اسکولوں سے لے کر خصوصی کھیلوں کی یونیورسٹیوں تک کھیلوں کی ترقی کے منصوبوں کو تیز کرنا، کھیلوں کے انسٹرکٹرز کی کمی کو دور کرنا، ملک بھر میں ضلعی مراکز میں اعلیٰ درجے کی کھیلوں کی سہولیات کا قیام، عالمی معیار کے ٹرینرز کی بھرتی، پیدائشی صلاحیت کے ساتھ غیر استعمال شدہ ٹیلنٹ کی نشاندہی کرنا، اور انہیں فراہم کرنا شامل ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اولمپک مقابلوں کے بعد کے اسٹیڈیموں کے استعمال پر توجہ دے تاکہ انہیں قومی خزانے پر سفید ہاتھیوں کی طرح ثابت نہ ہوجائیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.