اولمپک کوالیفائنگ کے لیے خواتین کے پانچ زمروں کے ٹرائیلز ہوئے جس میں سب کی نگاہیں 51 کلوگرام زمرے میں منی پور کی میری کوم اور تلنگانہ کی نکہت زرین کے مابین مقابلہ پر لگی ہوئی تھی۔
اس ٹرائيل کو کوور کرنے کے لیے بڑی تعداد میں میڈیا موجود تھا جبکہ اسی کے ساتھ ہی نکہت کی ریاست تلنگانہ کے کئی افسران اور ان کے والد جمیل احمد موجود تھے۔
میری کوم اور نکہت کا مقابلہ کافی ہنگامہ خیز رہا، مقابلے کے 10 ججوں نے 1-9 سے میری کوم کے حق میں فیصلہ دیا۔
مقابلہ ختم ہونے کے بعد میری کوم نے نکہت سے ہاتھ نہیں ملایا اور ناراض ہو کر رنگ سے باہر نکل گئیں۔
دوسری جانب اپنی شکست سے دلبرداشتہ ہو کر نکہت رو پڑیں جبکہ ان کے والد جمیل احمد رنگ سے باہر نکلتی ہوئی ایم سی میری کوم پر برس پڑے جس کے باعث ہنگامہ برپا ہو گیا اور بھارتی باکسنگ ایسوسی ایشن کے صدر اجے سنگھ نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی شش کی۔
تلنگانہ باکسنگ یونین کے سکریٹری اے پی ریڈی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اس مقابلے کی ریکارڈنگ انٹرنیشنل باکسنگ اسوسی ایشن کو دکھائیں گے۔
مقابلے کے بعد اجے سنگھ نے کہا کہ 'ٹرائيل مکمل طور پر منصفانہ تھے اور اس کے لیے 10 ججوں کو تعینات کیا گیا تھا۔
میری کوم نے صحافیوں کو بتایا کہ نکہت ان کا احترام نہیں کرنا جانتی، اس لیے وہ ان سے مصافحہ کرنا پسند نہیں کریں گی، میری کوم نے کہا کہ انہیں خود کو آخر کتنی بار ثابت کرنا پڑے گا۔
پانچ زمروں کے ٹرائیلز میں تیسرا مقابلہ میری کوم اور نکہت کا تھا، دونوں باکسرز اس سے پہلے تک اپنے پریکٹس میں لگی ہوئی تھیں، دونوں کے رنگ میں اترتے ہی کیمروں کے فلیش چمکنے لگے اور انڈور ہال میں شور ہونے لگا، آخر طویل عرصے بعد دونوں باکسرز کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا۔
میری کوم نے اس برس عالمی چیمپیئن شپ سے پہلے یہ کہتے ہوئے ٹرائیلز دینے سے انکار کر دیا تھا کہ منتخب ہونے کے لیے ان کی کارکردگی ہی کافی ہے، میری کوم نے عالمی چیمپیئن شپ میں کانسے کا تمغہ جیتا تھا جبکہ نکہت زرین نے عالمی چیمپیئن شپ میں حصہ نہیں لیا تھا کیونکہ ان کے وزن کے زمرے میں میری کوم اتری تھیں۔
میری کوم نے حال ہی میں دہلی میں بگ باؤٹ باکسنگ لیگ کے دوران پیٹھ میں درد کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو ہٹا لیا تھا جس سے ان کا نکہت کے ساتھ میچ ہی نہیں ہو سکا تھا، اس مقابلے کو کوور کرنے کے لیے بڑی تعداد میں میڈیا موجود تھا، یہ پہلی بار ہوا جب باکسنگ کے ایسے ٹرائیلز کو کوورکرنے کے لیے میڈیا کی بڑی تعداد موجود تھی۔
یہ مقابلہ کافی سخت تھا اور میری کوم نے اپنے تجربے کا استعمال کرتے ہوئے نکہت کو فاصلے پر رکھنے کی کوشش کی، مقابلے کے بیچ بیچ میں دونوں باکسرز ایک دوسرے کو پکڑ کر سستانے بھی لگتی تھیں، مقابلہ آخر تک دلچسپ بنا رہا اور نکہت کے حامیوں کو امید تھی کہ نکہت نے مقابلہ جیت لیا ہے لیکن جیسے ہی میری کوم کو 1-9 کے فرق سے فاتح قرار دیا گیا، نکہت کے والد جمیل احمد کے ساتھ ساتھ اے پی ریڈی اپنی جگہ کھڑے ہو کر مخالفت کرنے لگے۔
میری کوم نے رنگ میں نکہت سے ہاتھ نہیں ملایا اور ناراض ہو کر رنگ سے باہر نکل گئی، میری کوم جب اپنے مقام کی طرف جا رہی تھیں تب نکہت کے والد ان پر چینخنے لگے جبکہ اے پی ریڈی نے بھی احتجاج کیا، معاملے کو طول پکڑتا دیکھ کر فیڈریشن کے صدر اجے سنگھ نے ریڈی اور نکہت کے والد کو سمجھانے کی کوشش کی۔
اس ہنگامے کے درمیان دوسرے مقابلے چلتے رہے لیکن سب کا دھیان صرف اس تنازع پر لگا ہوا تھا، نکہت نے خود اپنے والد اور ریڈی کو پر سکون کرنے کی کوشش کی، تاہم ان کی آنکھوں سے چھلکے آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے، ٹرائیلز کے پانچ فاتح باکسرز فروری میں چین میں ہونے والے پہلے اولمپک کوالیفائر میں بھارت کی جانب سے چیلنج پیش کریں گی اور اولمپک کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔
این سی میری کوم نے نکہت زرين کو اولمپک کوالیفائر ٹرايلز کے فائنل میں شکست دے کر اولمپکس 2020 کا ٹکٹ حاصل کر لیا ہے، اگرچہ اس مقابلے کے لیے نکہت کو طویل عرصے تک اپنے حق کی لڑائی لڑنی پڑی تھی۔
تلنگانہ کی نوجوان باکسر نکہت زرين بے شک اولمپک کوالیفائر ٹرايلز کے فائنل میں چھ بار عالمی چیمپیئن میری کوم سے ہار گئیں لیکن اس کے باوجود وہ کھیل کی دنیا میں حق کی لڑائی کی مثال بن گئیں۔
میری کوم کے ساتھ مقابلے کے لیے نکہت کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا تھا، وہ بھارتی باکسنگ فیڈریشن (بی ایف آئی) کے خلاف بھی گئیں جس میں انہیں کامیابی ملی، انہی کی ضد نے فیڈریشن کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے اور پرانے قوانین پر واپس لوٹنے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔
نکہت کی لڑائی بی ایف آئی صدر اجے سنگھ کے اس بیان سے شروع ہوئی تھی، جس میں انہوں نے فیڈریشن قوانین کو پلٹ کر میری کوم کو براہ راست اولمپک کوالیفائر میں بھیجے جانے کی بات کہی تھیں، یہاں نکہت آگ بگولہ ہوگئیں اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ فیڈریشن اور تجربہ کار باکسر کے خلاف جنگ لڑیں گی جو ان سے ان کا واجب حق چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دراصل، روس میں کھیلی گئی عالمی چیمپئن شپ میں میری کوم نے 51 کلو گرام کے زمرے میں کانسے کا تمغہ جیتا تھا، اس جیت کے بعد اجے سنگھ نے میری کوم کو اولمپک کوالیفائر میں براہ راست بھیجنے کی بات کہی تھی جو بی ایف آئی کے قوانین کے منافی تھا۔
بی ایف آئی نے ماہ ستمبر میں قانون بنایا تھا کہ 'عالمی چیمپئن شپ میں طلائی یا چاندی کا تمغہ جیتنے والی کھلاڑیوں کو ہی اولمپک کوالیفائر کے لیے براہ راست انٹری ملے گی اور جس زمرے میں بھارت کی باکسر فائنل میں نہیں پہنچی ہیں اس زمرے میں ٹرايلز ہوں گے اس قانون کی رو سے میری کوم کو ٹرائلز سے گزرنا تھا، لیکن فیڈریشن کے صدر اجے سنگھ کے بیان کے بعد وہ براہ راست اولمپک کوالیفائر میں جانے کی حقدار بن گئیں تھیں اور یہی بات نکہت کو گراں گزری اور انہوں نے اپنی بات رکھتے ہوئے فیڈریشن کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ٹرايلز مقابلے منعقد کرانے کا مطالبہ کیا۔
نکہت نے بی ایف آئی کو خط بھی لکھا اور میڈیا کے سامنے بھی اپنی بات رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹیں، انہوں نے کھلے طور پر میری کوم کو چیلنج کیا تھا، نکہت نے ڈٹ کر جو لرائی لڑی انہیں اس کا پھل ملا اور بی ایف آئی اپنے قوانین پر واپس آنا پڑا نیز ٹرائلز مقابلے بھی منعقد کروانے پڑے۔
اس طرح نکہت نے اپنے حق کے لیے جو جنگ لڑی تھی، اس میں انہوں نے بی ایف آئی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور کامیابی حاصل کی اور میری کوم کو رنگ میں اترنے پر مجبور کر ديا،
یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ خواتین کے 51 کلوگرام زمرے میں میری کوم اور نکہت ہی نہیں بلکہ اس زمرے میں پنکی رانی، جیوتی گولیا اور ریتو گریوال بھی ہیں، نکہت کے علاوہ پنکی نے بھی میڈیا سے بات کرتے ٹرايلز نہ ہونے پر ناراضگی ظاہر کی تھی لیکن اس زمرے کی باقی باکسرز نکہت کی حمایت میں نہیں آئی تھیں اور نکہت اکیلی فیڈریشن سے لوہا لے رہی تھیں۔
رنگ میں بھلے ہی میری کوم نے اپنے تجربے اور بہترین کھیل کے دم پر نکہت کو شکست دی لیکن اس جنگ میں نکہت نے بتا دیا کہ وہ لڑنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گي۔
اس دوران میری کوم اور بی ایف آئی کا رویہ بھی عجیب ہی رہا، جب نکہت نے ٹرايلز کی مانگ کی تھی تب زیادہ تر وقت میری کوم نے خاموشی اختیار رکھی تھی، ایک دو مرتبہ انہوں نے کچھ کہا بھی لیکن ایسا کچھ بولا جو انہیں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر زیب نہیں دیتا۔
میری کوم نے ایک انگریزی نیوز چینل پر صاف طور پر یہ کہا تھا کہ 'نکہت کون ہے، میں نے عالمی چیمپیئن شپ میں آٹھ تمغے جیتے ہیں، نکہت نے کیا جیتا ہے؟
نکہت کے ساتھ مقابلے کے بعد میری کوم بغیر ہاتھ ملائے ہی رنگ سے باہر چلی گئی تھیں، میری کوم ایک سینیئر باکسر ہیں اور برسوں سے نکہت جیسی کئی باکسرز کے لیے آئیڈیل رہی ہیں اور ایسے میں انہیں بڑا پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکہت سے ہاتھ ملانا چاہیے تھا، لیکن مقابلے کے بعد انہوں نے کہا کہ 'میں اس سے (نکہت) سے ہاتھ کیوں ملاؤں؟، اسے احترام حاصل کرنے کے لیے دوسروں کا احترام کرنا چاہیے، اسے خود کو رنگ میں ثابت کرنا چاہئے تھا نہ کہ رنگ کے باہر۔
میری کوم کے اس بیان سے ثابت ہوتا کہ وہ رنگ کے باہر کسی بھی کھلاڑی کی حق کی لڑائی کو جائز نہیں مانتیں، ابھرتی ہوئی باکسرز کی کامیابیوں کا اس طرح کے انکار دینا میری کوم جیسی بڑی کھلاڑی کو زیب نہیں دیتا۔
میری کوم راجیہ سبھا رکن بھی ہیں لیکن جہاں حق کی بات آتی ہے تو یہ افسانوی کھلاڑی اپنے منہ پر انگلی رکھ کر اس طرح چپ ہو جاتی ہیں گویا ان کے منہ میں زبان ہی نہیں ہو۔
حال ہی میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت میں ان کے آبائی وطن سمیت پورے شمال مشرقی بھارت میں بھی کئی طرح کے احتجاج ہوئے۔
اس سنگین مسئلے پر راجیہ سبھا رکن میری کوم نے اس طرح کا عجیب بیان دیا جو ان کی بے حسی کو صاف کرتا ہے، میری کوم نے کہا تھا کہ 'میں سی اے اے کی حمایت کرتی ہوں کیونکہ اگر میں مخالفت کروں گی تو میری کوئی سننے والا نہیں ہے، یہاں میری کوم شاید ایروم شرمیلا کو بھول گئی تھیں، جنہوں نے مسلح افواج ایکٹ کے خلاف اکیلے طویل جنگ لڑی تھی.
نکہت زرین بے شک مقابلہ ہار گئی لیکن میری کوم کی خاموشی اور نکہت کی جرات نے اپنے اور دوسروں کے لیے لڑائی لڑنے میں کیا فرق ہوتا ہے، وہ صاف بتا دیا ہے۔