چنئی سُپر کنگز کا مقابلہ سن رائزرز حیدرآباد سے ہوگا۔ یہ میچ دیکھنے کے قابل ہے، جب رویندر جڈیجہ کین ولیمسن کی کپتانی والی سن رائزرس حیدرآباد کے خلاف چنئی سُپر کنگز کی قیادت کریں گے یہ میچ ممبئی کے ڈی وائی پاٹل اسٹیڈیم میں ہوگا۔ اس سیزن میں لگاتار تین میچ ہارنے کے بعد چنئی سُپر کنگز کے لیے یہ سخت مقابلہ ہوگا۔ چنئی، آئی پی ایل 2022 میں ابھی تک ایک بھی جیت حاصل نہیں کر سکی ہے جبکہ حیدر آباد کو بھی اپنی پہلی جیت کی تلاش ہوگی۔ Sunrisers Hyderabad vs Chennai Super Kings
دونوں ٹیموں کے بہت سے ریکارڈز کے ساتھ ساتھ مہارت کی بنیاد پر پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں۔ چنئی سُپر کنگز بمقابلہ سن رائزرس حیدرآباد میچ کے صحیح اعداد و شمار کی پیش گوئی کرنے کے لیے کرکٹ ماہرین سے بھی مشورہ کیا جاتا ہے۔ جب بات ون آن ون میچوں کی ہو تو پوری آئی پی ایل کی تاریخ میں ان دونوں ٹیموں کے درمیان کُل 17 میچز کھیلے گئے ہیں جن میں سے چنئی نے 13 جیت حاصل کی ہے جب کہ حیدرآباد محض چار میچوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ گزشتہ آئی پی ایل کے بارے میں بات کریں تو چنئی سُپر کنگز نے دونوں میچوں میں جیت حاصل کی تھی۔
آئی پی ایل 2022 میں سن رائزرس حیدرآباد اب تک کی کارکردگی: رواں سیزن میں حیدرآباد ٹیم کی آخری دو میچوں میں کوئی خاص کارکردگی نہیں رہی۔ ٹیم کی جانب سے کوئی بڑی شراکت داری کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی جانب سے اسٹرائیک دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ دونوں میچوں میں بولرز کا اکانومی ریٹ کافی زیادہ رہا۔ صرف بھویشور کمار ہی اپنی کفایتی گیند بازی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جب کہ دیگر گیند باز 10 رنز فی اوور سے زیادہ کی اکانومی کے ساتھ کھیلے۔ کوئی بھی گیند باز کم از کم تین وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس سیزن میں سن رائزرس حیدر آباد کی مجموعی کارکردگی نارمل یا اس سے بھی کم درجہ کی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں ٹیم کی جانب سے کوئی بڑا اقدام نظر نہیں آیا۔ بیٹنگ آرڈر اور بولنگ اسٹائل پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔
آئی پی ایل 2022 میں سُپر کنگز کی اب تک کی کارکردگی: چنئی سُپر کنگز کو لگاتار تین میچ ہارنے کے بعد سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی قابل ستائش رہی لیکن پھر بھی ٹیم جیت حاصل نہ کر سکی ہے۔ نئے کپتان کے ساتھ ٹیم کی کارکردگی تو بہتر رہی ہے لیکن وہ میچ جیتنے سے ابھی بھی محروم ہیں۔ گزشتہ میچ میں ایم ایس دھونی نے نصف سنچری بنا کر ٹیم کو آگے بڑھایا تھا لیکن ان کی یہ محنت رائیگاں چلی گئی تھی۔ اس سیزن میں باؤلر اپنے کپتان کے ساتھ اچھا کھیلے۔ براوو جیسے کھلاڑی نے کم اکانومی کے ساتھ بولنگ کی اور وکٹیں لیں۔ جب کہ اس سیزن میں زیادہ تر بولرز نے تین سے زیادہ وکٹیں نہیں لیں۔ کچھ نئے کھلاڑیوں کا اکانومی ریٹ 15 رنز فی اوور تک ہے۔