اسٹیڈیم میں شائقین کی تعداد بھی کوئی خاص نہیں ہوا کرتی تھی۔ کھلاڑیوں کی میچ فیس بھی برائے نام ہی تھی۔کہا جاتا ہے کہ محض 75 یا 100 روپے کھلاڑی کو میچ کی فیس کے طور پر دیئے جاتے تھے ۔ آمدنی صرف چھوٹے سکّوں میں ہوتی تھی۔
اس زمانے میں یہ فیس حاصل کرنے والے بھارت کے ایک کھلاڑی ، جو بھارت کی جانب سے سلامی بلے باز کی حیثیت سے میدان میں اتر تے تھے وہ تھے سید مشتاق علی۔وہ نہ صرف ایک عظیم کھلاڑی تھے، بلکہ اپنے وقت کے ایک مقبول سپر اسٹار اور بھارتی نوجوانوں کے لئے ایک آئڈیل تھے۔
سید مشتاق علی، کرکٹ کےاس دور سے بھی گذرے جب اشتہارات وغیرہ سے اضافی آمدنی کا تو سوال ہی نہیں تھا، یہاں تک کہ کھلاڑیوں کو ہوٹلوں میں قیام کے بجائے دوسرے لوگوں کے گھروں میں ٹھہرایا جاتا تھا۔اس وقت فائیو اسٹار یا سیون اسٹار ہوٹلوں کاتصور ہی نہیں تھا، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ کرکٹ کی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ کھلاڑیوں کی اجرت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
1996 کے ورلڈ کپ کے بعد تو کرکٹ کی مارکیٹنگ نے ایسا رنگ جمایا کہ کھلاڑی، کرکٹ بورڈ اور کرکٹ ایسوسی ایشنز سب مالا مال ہوگئے۔اس سلسلہ میں مشتاق علی اور وجے ہزارے اکثر کہا کرتے تھے کہ انہیں جو رقم ملتی تھی وہ بڑی مشکل سے سنبھال کر اپنے پاس رکھنی پڑتی تھی۔
سید مشتاق علی کی پیدائش 17 دسمبر1914 کو مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ہوئی۔ سید مشتاق علی کے والد کا نام خان صاحب سید یعقوب علی تھا۔ وہ سینٹرل انڈیا ایجنسی پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے بڑے بھائی الطاف علی اور چچا بشیر علی دونوں ہاکی و غیرہ کے کھلاڑی رہ چکے ہیں اور اندور میں آغا خان ہاکی ٹورنامنٹ میں حصہ لے چکے ہیں۔ مشتاق علی کے گھر والے اندور میں پولیس لین میں قیام پذیر تھے۔
مشتاق نے چھوٹی عمر میں ہی اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا شروع کردیا تھا۔مشتاق کو بچپن سے ہی کرکٹ سے لگاؤ تھا۔ اس دور میں کرکٹ کے زیادہ سامان دستیاب نہیں تھے۔ وکٹ کی جگہ ٹین کے کنستروں کو وکٹ کے طور پر استعمال کیا جاتاتھا ۔
اسی زمانہ میں مشتاق علی کرکٹ کے اس جنون کواپنے دوستوں کے ساتھ پورا کرتے تھے۔ وہ جس اسکول میں زیر تعلیم تھے وہاں فٹ بال اور ہاکی پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی لیکن مشتاق کو اپنے دوستوں اورہم عمر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ میں زیادہ دلچسپی تھی۔
جب یہ بات اسکول کے ہیڈ ماسٹر تک پہنچی ، تو انہوں نے ان کی درخواست پر کرکٹ سے متعلق اس وقت میں جو بھی سہولیات فراہم کرائی جاسکتی تھیں ، کرائی گئیں۔مشتاق اس اسکول کے پہلے کرکٹ کپتان بھی بنے اور یہ و ہی مشتاق علی ہیں جو غیر ملکی سرزمین پر ٹسٹ کرکٹ میں سنچری بنانے والے بھارت کے اولین بلے بازبنے۔سید مشتاق علی نے اولڈ ٹریفرڈ کے میدان پر 1936 میں سنچری لگائی تھی۔
مشتاق علی نے 1934 سے 1952 کے درمیان یوں تو صرف 11 ٹسٹ میچ ہی کھیلے لیکن اتنی قلیل مدت میں انہوں نے دو بڑے یادگاری لمحے اپنے نام درج کر لئے۔ انہوں نےاپنے کرکٹ کریئر میں 612 رن بنائےجس میں 2 سنچریاں بھی شامل تھیں ۔
انہوں نے اپنے اوپنگ پارٹنر وجے مرچنٹ سے پہلے1936 میں اولڈ ٹریفرڈ میں انگلینڈ کےخلاف سنچر ی بنا کر کسی غیر ملکی سرزمین پر سنچری بنانے والے ہندستان کے پہلے کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔اپنے24 سالہ فرسٹ کلاس کرکٹ کریئرمیں مشتاق علی نے 13 ہزار رن بنائے جس میں 30 سنچریاں بھی شامل ہیں اور 155 وکٹ بھی حاصل کیے۔ان کے بیٹے سید گلریزعلی اور پوتے سید عباس علی نے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے۔
مشتاق علی کو سی کے نائڈیو یا کوٹری کناکئیا نائڈو نےدریافت کیا تھا۔سی کے نائیڈو ٹسٹ کرکٹ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان تھے۔ سی کے نائڈیو نے انہیں 13 سال کی عمر میں اندور میں کرکٹ کھیلتے دیکھا اور پھر انہوں نے ہی مشتاق علی کی کرکٹ میں مہارت کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔انہوں نے وزڈن ا سپیشل ایوارڈ بھی جیتا۔ 1936 کے دورے میں انہوں نے 4 فرسٹ کلاس سنچریاں بنائیں۔ وہ اوپنگ یا مڈل آرڈر رائٹ ہینڈ بلے باز تھے۔ دوسری عالمی جنگ عظیم کی وجہ سے وہ بہت زیادہ بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیل سکے۔
مجموعی طور پر انہوں نے 11 ٹسٹ کھیلے۔
سید مشتاق علی نے اپنا پہلا ٹسٹ میچ انگلینڈ کے خلاف کلکتہ میں 5 سے8 جون 1934 کو کھیلا۔ انہوں نے اپنا آخری ٹسٹ مدراس میں انگلینڈ کے خلاف 6 سے 10 فروری 1952 کو 38سال کی عمر میں کھیلا۔
ہندستان میں کرکٹ کے ابتدائی دور میں مشتاق علی نے علاقائی ٹیموں اور پرائیویٹ کلب کےلیے بھی کرکٹ کھیلی۔مشتاق علی نے 1933-34 میں انگلینڈ کے خلاف کولکتہ میں اپنے کریئر کا پہلا میچ کھیلا۔ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے وہ انتظامیہ کو بغیر اطلاع کے غائب ہو گئے اور اس کا اثر ان کے کریئر پر پڑا۔ وہ اپنے وقت کے سب سے مقبول اور سپر اسٹار کھلاڑی تھے۔ اس وقت ہندستان کی نوجوان نسل اُن سے بہت زیادہ متاثر تھی۔مشتاق علی کرکٹ مداحوں میں اتنے مقبول ہوگئے تھے کہ ایک مرتبہ جب وہ ٹیم کا حصہ نہیں تھے تو ان کے مداحوں نے کولکاتہ میں احتجاج بھی کیا۔ لوگ نعرے لگانے لگے- ‘مشتاق نہیں تو ٹسٹ نہیں’۔
سید مشتاق علی ہندستانی کرکٹ کے وہ کھلاڑی تھے جو دائیں ہاتھ کے سلامی بلے باز رہے جنہوں نے ایک ہندستانی کرکٹرکے طور پر پہلی بار غیر ملکی سرزمین پر ٹسٹ سنچری لگائی تھی۔مشتاق علی دائیں ہاتھ سے بلے بازی کیا کرتے تھے جبکہ بالنگ بائیں ہاتھ سے سلو لیفٖٹ آرم گیند پھینکتے تھے۔ انہوں نے گھریلو میچوں میں اکثر آل-راؤنڈر کے طور پر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مشتاق علی کو ان کی خوبصورت بیٹنگ اسٹائل اورخوش مزاجی کے لئے جانا جاتا تھا۔
مشتاق علی نے علاقائی ٹیموں اور ذاتی کلبوں کے لئے بڑے پیمانے پر کرکٹ کھیلا ۔جب تک ان کی تقرری ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں نہیں ہوئی تھی ایک اور عظیم بلے باز وجے مرچنٹ کے ساتھ مشتاق علی کی جارحانہ اور طاقتور بیٹنگ کئی برسوں تک دیکھنے کو ملی جس میں کئی بڑی بڑی پارٹنر شپ شامل تھیں۔
بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ اس کھیل کو مزید فروغ دینے کے مقصد سے اور نکھار لانے کےنظر ‘رنجی ٹرافی’ جیسے ٹورنامنٹ کی شروعات کی۔ رنجی ٹرافی کے آغاز یوں تو ملک کی آزادی سے 13 سال پہلے ہی ہو گیا تھا۔ رنجی ٹرافی شروع ہونے کے 27 سال بعد 1961 میں ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ نے دلیپ سنگھ کے نام پر‘ دلیپ ٹرافی’ متعارف کرائی۔ قومی ٹورنامنٹ کے ان دو مقابلوں بین الاقوامی سطح پر ان کھلاڑیوں کو اپنے کھیل کونکھارنے،صیقل کرنے کا موقع فراہم کیا، جو کھلاڑی اپنی محنت اور بہترین کارکردگی کے لحاظ سے دوسروں سے آگے نکل گئے۔
محض37 برس کی عمر میں سید مشتاق علی نے اپنا آخری ٹسٹ میچ کھیلا اور یہ ہندستان کی انگلینڈ پر پہلی ٹسٹ فتح تھی۔ سال 52-1951 میں ہندوستان نے چنئی کے میدان پر یہ جیت حاصل کی تھی۔ سید مشتاق علی نے اپنے قلیل مدتی کرکٹ سفر میں 11 ٹسٹ میچوں میں 20 اننگز کھیل کر32.21 کی اوسط سے 612 رن بنائے جس میں ان کا سب سے زیادہ اسکور 112 رن رہا۔ اس میں ان کی 2 سنچریاں اور 3 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ اسی طرح اگر ان کی گیند بازی کی طرف نظر ڈالیں تو وہ بھی 11 میچوں پر مشتمل نظر آتی ہے، جس میں وہ حریف ٹیم کے صرف تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کرسکے۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹسٹ میچ 5 جنوری 1934 کو انگلینڈ کے خلاف ایڈن گارڈن کولکتہ میں کھیلا اور انگلینڈ کے ہی خلاف 6 فروری 1952 میں چنئی کے ایم-اے-چدمبرم اسٹیڈیم میں ا نہوں نے اپنا آخری ٹسٹ میچ کھیلا۔انہیں 1964 میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ہندستان کے سابق کرکٹ اسٹار سید مشتاق علی نوے سال کی عمر میں18 جون 2005 کو ِاندور میں انتقال کر گئے۔