ETV Bharat / sports

جنوبی افریقہ اے کے خلاف سیریز کے لیے بھارتی ٹیم کا اعلان

منیش پانڈے اور شريس ایر کو جنوبی افریقہ اے خلاف ترو اننت پورم میں 29 اگست سے 6 ستمبر تک پانچ میچوں کی یک روزہ سیریز کے لیے انڈیا اے ٹیم کی کپتانی کریں گے۔

جنوبی افریقہ اے کے خلاف سیریز کے لیے بھارتی ٹیم کا اعلان
author img

By

Published : Aug 19, 2019, 11:39 PM IST

Updated : Sep 27, 2019, 2:25 PM IST

بھارت اور جنوبی افریقہ کے مابین غیر سرکاری یک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ 29 اگست، دوسرا میچ 31 اگست، تیسرا میچ دو ستمبر، چوتھا میچ چار ستمبر اور آخری میچ چھ ستمبر کو کھیلے جائیں گے۔

بی سی سی آئی کی سلیکشن کمیٹی نے اے ٹیموں کو منتخب کیا۔

پہلے تین میچوں میں ٹیم کی کپتانی منیش پانڈے سنبھالیں گے جبکہ چوتھے اور پانچویں میچ میں شريس ایر کپتانی کریں گے۔

پہلے تین میچوں کے لئے انڈیا اے ٹیم:

منیش پانڈے (کپتان)، رتوراج گائيكواڑ، شبھمان گل، انمول پريت سنگھ، رکی بھوئی، ایشان کشن (وکٹ کیپر)، وجے شنکر، شیوم دوبے، كرونال پانڈیا، اکشر پٹیل، يزویندر چہل، شاردل ٹھاکر ، دیپک چہر، خلیل احمد اور نتیش رانا۔

چوتھے اور پانچویں میچ کی ٹیم:
شريس ایر (کپتان)، شبھمان گل، پرشانت چوپڑا، انمول پريت سنگھ، رکی بھوئی، سنجو سیمسن (وکٹ کیپر)، نتیش رانا، وجے شنکر، شیوم دوبے، واشنگٹن سندر، اکشر پٹیل، راہل چہر، شاردل ٹھاکر، تشار دیشپانڈے اور ایشان پوریل۔

بھارت اور جنوبی افریقہ کے مابین غیر سرکاری یک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ 29 اگست، دوسرا میچ 31 اگست، تیسرا میچ دو ستمبر، چوتھا میچ چار ستمبر اور آخری میچ چھ ستمبر کو کھیلے جائیں گے۔

بی سی سی آئی کی سلیکشن کمیٹی نے اے ٹیموں کو منتخب کیا۔

پہلے تین میچوں میں ٹیم کی کپتانی منیش پانڈے سنبھالیں گے جبکہ چوتھے اور پانچویں میچ میں شريس ایر کپتانی کریں گے۔

پہلے تین میچوں کے لئے انڈیا اے ٹیم:

منیش پانڈے (کپتان)، رتوراج گائيكواڑ، شبھمان گل، انمول پريت سنگھ، رکی بھوئی، ایشان کشن (وکٹ کیپر)، وجے شنکر، شیوم دوبے، كرونال پانڈیا، اکشر پٹیل، يزویندر چہل، شاردل ٹھاکر ، دیپک چہر، خلیل احمد اور نتیش رانا۔

چوتھے اور پانچویں میچ کی ٹیم:
شريس ایر (کپتان)، شبھمان گل، پرشانت چوپڑا، انمول پريت سنگھ، رکی بھوئی، سنجو سیمسن (وکٹ کیپر)، نتیش رانا، وجے شنکر، شیوم دوبے، واشنگٹن سندر، اکشر پٹیل، راہل چہر، شاردل ٹھاکر، تشار دیشپانڈے اور ایشان پوریل۔

Intro:پروفیسر عرفان حبیب, ہندوستانی مورخ, پدم بھوشن (2005) سے خاص ملاقات۔


Body:پدم بھوشن پروفیسر عرفان حبیب کی پیدائش 1931 میں ہوئی اور ہندوستان کی آزادی کے وقت پروفیسر عرفان حبیب نے ہائی اسکول پاس کیا تھا۔ آ کسفورڈ یونیورسٹی سے واپس آنے کے بعد پروفیسر عرفان حبیب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ہسٹری میی1969 سے 1991 تک پروفیسر رہے۔ والد محمد حبیب کا تعلق کانگریس سے تھا اس لیے کانگریس کی تحریک سے زیادہ واقف ہے۔

پروفیسر عرفان حبیب سے خاص مولاقات۔

مہاتما گاندھی نے 1909 میں ہند سو راج لکھی اس میں جو انکا بھارت کا تصور تھا وہ بعد میں بالکل بدل گیا اس میں بھی بھارت کے تصور میں وہ ہر جگہ ہندو، مسلمان اور پارسی سب کو ساتھ نام لیتے تھے اگر وہ یہ کہے کہ یہاں تعلیم ہو تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہاں مولانا اور پنڈت تعلیم دے پارسی بھی تعلیم دے کبھی ان کا مطلب بھارت سے ہندو ملک نہیں ہے۔ 1909 تک ان کی یہ پوزیشن تھی یہی پوزیشن ان کی ہمیشہ رہی۔ ہم ان کو اس لیے سیکولر نہیں کہہ سکتے کہ پنڈت نہرو کی طرح ان کو اس کی فکر نہیں تھی کہ مذہب کیا کہتا ہے جیسے سہی سمجھتے ہیں وہیں کرتے ہیں ان کے لیے سب مذہب برابر تھے۔

لیکن انہوں نے ایک بات بعد میں کہیں کے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر مذہب میں کئی چیز سہی ہیں اور ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ غلطی بھی ہیں میرے مذہب میں بھی غلطی ہے تو اس لیے ہر مذہب کے ساتھ سہی برتاؤ کرنا چاہیے کوئی ایک مذہب نہیں چلنا چاہیے وہ جب رام راج کہتے تھے تو اس کا مطلب سوراج سے تھا ان کا مطلب ایسا تھا جو ان کی نظر میں جو خدا کہتے ہیں وہی راج میں ہوں کیوں کہ وہ رام کا مطلب ہمیشہ خدا سے لیتے تھے۔

جواہر لال نہرو کو خدا میں یقین نہیں تھا انکا آخرت میں یقین تھا۔ آزادی کی تحریک میں سبھی خیالوں کے لوگ شامل ہوئے گاندھی جی نے یہ سب سمجھا اور کہا میرے جانشین نہرو ہیں۔

آزادی کی تحریک میں یہ تو یاد رکھنا چاہیے محمد علی اور شوکت علی دونوں علیگڑھ کے طلبہ تھے ایم اے او کالج کے اور ایم اے او کالج کا انتظام انگریزوں سے شاہیں تھا تو انہوں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی اور نکتہ چینی کی پھر انگریز سو راج مخالف ہوئے گاندھی کے ساتھ ہوئے۔ خلافت تحریک میں جب یہاں یونیورسٹی بن رہی تو ایم اے او کالج اسی وقت ترک موالات میں ان کی آپریشن کی تحریک شروع ہوئی تو مولانامحمدعلی گاندھی کو علیگڑھ لائے۔ تو یہاں طلبہ پڑھتے تھے تو طلبہ نے ایم اے او کالج چھوڑ دیا کیونکہ وہ انگریزوں کی‏ گرانڈ سے چلتا تھا پھر انہوں نے جامعہ ملیہ بنائیں بعد میں وہ علیگڑھ سے دہلی منتقلی ہوئی۔ جامعہ ملیہ کو گاندھی جی نے ہمیشہ مدد دی تلک فنڈ سے بہت روپیہ دیا اس چندے سے ہی بہت سالوں تک جامعہ ملیہ چلتی رہی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی ہے جو ان کی طرز تخیل ہے، نظریہ ہے وہ گاندھی جی سے الگ ہے گاندھی جی کے مخالفت تھے، کیا کیا گالیاں سوار کر اور ان کے ساتھیوں نے گاندھی جی کو نہ دیں جب گاندھی جی کا قتل ہوا تو جیسا سردار پٹیل نے کہا ہے کہ انہوں نے مٹھائیاں بانٹی جس کو گلورکر نے انکار نہیں کیا جب سردار پٹیل اور نہرو نے یہ الزام لگایا تو انہوں نے انکار نہیں کیا کہ ہم نے مٹھائی بانٹی، تو جو گاندھی جی کے قتل پر مٹھائی بانٹے اس سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ گاندھی جی کے نظریے کے ساتھ ہوں گے ظاہر ہے اس کے مخالف ہیں۔


۱۔ بائٹ۔۔۔۔ پروفیسر عرفان حبیب۔۔۔۔ہندوستانی مورخ۔۔۔۔۔پدم بھوشن ایوارڈ۔



Conclusion:
Last Updated : Sep 27, 2019, 2:25 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.