ETV Bharat / sitara

تان سین کے راگوں پر ہی برصغیر کی کلاسیکی موسیقی زندہ ہے - اردو نیوز

گوالیار سے تقریباً 45 کلو میٹر دور گرام بیہٹ میں شری مرکند پانڈے کے یہاں تان سین کی پیدائش ہوئی۔ تان سین کا اصلی نام رمتانو پانڈے تھا۔ ان کے والد گوالیار میں مندر کے پجاری تھے۔ کہتے ہیں شری مرکند پانڈے کے یہاں کئی بچوں کی ولادت ہوئی لیکن قحط سازی کی وجہ سے وہ زندہ نہیں رہ پائے۔ اس سے مایوس ہوکر مرکنڈ پانڈے صوفی سنت محمد غوث کی پناہ میں گئے اور ان سے اولاد کے لئے دعا کرائی۔ ان کی دعا رنگ لائی اور 1486 میں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی جو آگے چل کر تان سین کے نام سے مشہور ہوا۔

tansen death anniversary today
تان سین کے راگوں پر ہی برصغیر کی کلاسیکی موسیقی زندہ ہے
author img

By

Published : May 5, 2021, 2:15 PM IST

تان سین کی بیوی کا نام حسینی تھا۔ وہ رانی مرگنینی کی داسی تھیں۔ تان سین کے چار بیٹے، سرت سین، شرت سین، ترنگ سین اور ولاس خان تھے جبکہ ان کے یہاں ایک بیٹی کی بھی پیدائش ہوئی جس کا نام سرسوتی تھا۔ تان سین کے تمام بچے بھی موسیقار تھے۔

تان سین شمالی بھارت کے کلاسیکل میوزک کے مایہ ناز سنگیت کار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم مدھیہ پردیش میں حاصل کی۔ انہیں تان سین کا نام سوامی ہری داس نے دیا تھا جو ان کی آواز سن کر جھوم اٹھے۔ سوامی ہری داس کے پا س تان سین نے بارہ برسوں کی عمر تک سنگیت کی تعلیم پائی۔ انہوں نے ساہتیہ اور سنگیت شاستر کی تعلیم بھی حاصل کی۔

جس وقت تان سین کی پیدائش ہوئی اس وقت گوالیار پر راجا مان سنگھ تومر کی حکومت تھی۔ ان کے دور حکومت میں گوالیار سنگیت کا مرکز کہا جاتا تھا۔ جہاں بیجو باورا، کرن اور محمود جیسے عظیم سنگیت کار اور گلوکار تھے۔

تان سین کی سنگیت کی تعلیم بھی اسی ماحول میں ہوئی۔ راجہ مان سنگھ تومر کی موت کے بعد اور وکرم جیت سے گوالیار کا راج پاٹھ چھن جانے کے بعد یہاں سنگیت منڈلی بکھرنے لگی۔ تب تان سین بھی ورندرا بن چلے گئے اور وہاں انہوں نے سوامی ہر ی داس جی سے سنگیت کی اعلی تعلیم حاصل کی۔

ابتدا سے ہی تان سین میں دوسروں کی نقل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ بچپن میں تان سین مویشیوں، پرندوں کی طرح طرح کی بولیاں کی نقل اتارا کرتے تھے اور جنگلی جانوروں کی بولیاں سیکھ کر وہ لوگوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے۔ اسی درمیان سوامی ہری داس سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان کی ملاقات کا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔

سوامی ہری داس ان کی مختلف بولیاں کو بولنے کی صلاحیت کو دیکھ کر کافی متاثر ہوئے۔ سوامی جی نے انہیں ان کے والد سے سنگیت سکھانے کے لئے مانگ لیا۔ اس طرح تان سین کو سنگیت کا علم حاصل ہوا۔ چھ برس کی عمر سے ہی انہوں نے موسیقی میں اپنی مہارت دکھانا شروع کر دی تھی۔ وہ سوامی ہری داس کے بھگت تھے۔

بے شمار راگوں کو موجودہ فنی شکل تان سین ہی نے دی۔ درباری کانپڑا، میاں کی ٹوڈی اور میاں کا سارنگ جیسے راگ بھی انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔

سنگیت سمراٹ تان سین کی نگری گوالیار کے لئے کہاوت مشہور ہے کہ جب یہاں بچے روتے ہیں تو سُر میں روتے ہیں اوراس شہر نے زمانہ قدیم سے آج تک ایک سے بڑھ کر ایک باصلاحیت سنگیت کار دنیا کو دیئے ہیں اورسُر اور سنگیت کے مایہ ناز فنکار میاں تان سین ان سب پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں۔

اکبر کے نورتن میں شامل کیے جانے کے بعد لوگ ادب سے ان کو میاں تان سین کہتے تھے اکبر خاص موقعوں پر ان سے راگ اور آلاپ کی فرمائش کرتے تھے۔ سنگیت سمراٹ تان سین اکبر کے انمول نورتنوں میں سے ایک تھے۔ سنگیت کے بغیر اکبر کا دربار سونا رہتا تھا۔

ایک بار اکبر نے نورتن کو دیپک راگ گانے کو کہا، تان سین نے انہیں بتایا کہ دیپک راگ گانے کا انجام کافی برا ہوسکتا ہے ۔ لیکن اکبر نے ان کی ایک نہ سنی۔ آخر کار انہیں یہ راگ گانا پڑا۔ ان کے گاتے ہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چاروں طرف سے آگ کی لپٹیں نکل رہی ہیں۔

سامعین سے گرمی کی شدت نہ جھیل سکے اور وہ دربار سے بھاگ نکلے۔ لیکن تان سین کا جسم گرمی کی شدت سے جھلسنے لگا۔ اس گرمی کی شدت صرف میگھ راگ سے ہی ختم ہوسکتی تھی۔ کہاجاتا ہے کہ تان سین کی بیٹی سرسوتی نے میگھ راگ سنا کر اپنے باپ کی جان کی حفاظت کی۔ بعد میں اکبر کو اپنی اس فرمائش پر بہت شرمندہ ہونا پڑا۔

سنگیت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تان سین ملک کے دورے پر نکل پڑے۔ انہوں نے مختلف مقامات کا سفر کیا اور وہاں انہوں نے سنگیت کے جوہر دکھائے انہیں شہرت تو بہت ملی لیکن گزارے لائق اجرت نہیں مل پائی۔ایک بار وہ ریوا (مدھیہ پردیش) کے راجہ رام چندر کے دربار میں گانے آئے۔

انہوں نے تان سین کا نام تو سنا تھا پر کبھی ان کا گانا نہیں سنا تھا۔ اس دن تان سین کا گانا سن کر راجہ رام چندر بہت متاثر ہوئے اسی دن سے تان سین ریوا میں ہی رہنے لگے اور انہیں راج گائک کے طور پر رکھ لیا گیا۔

انہیں ہر طرح کی مالی اور سماجی سہولیات فراہم کرائی گئیں اور ان کی عزت افزائی کی گئی۔ تان سین تقریباً 50 سال کی عمر تک یہیں رہے۔ برصغیر کی کلاسیکی موسیقی تان سین کے راگوں پر ہی زندہ ہے۔ اس کے بعد آنے والے استادوں نے راگ ودیا میں تبدیلی یا نئے تجربے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور عملاً یہ راگ اسی حالت میں ہیں جس میں تان سین نے ان کی تکمیل کی تھی۔

تان سین کی پرانی تصویروں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کا رنگ سانولا تھا۔ موچھیں پتلی تھیں، وہ سفید پگڑی باندھتے تھے۔ سفید چولا پہنتے تھے۔ کمر میں بدھی باندھتے تھے۔ دھروپد گانے میں تان سین کی کوئی برابری نہیں کرسکتا تھا۔

تان سین کی برسی گوالیار میں ہر سال منائی جاتی ہے۔ جہاں فن موسیقی کے شائقین کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔تان سین کا انتقال 5 مئی 1589 کو 80 برس کی عمر میں دہلی میں ہوا۔ اکبر نے خود جنازے میں شرکت کی۔

مزید پڑھیں:

بالی ووڈ میں ڈیبو کریں گے ناگا چیتنیا

تان سین کو گوالیار میں صوفی سنت شیخ محمد غوث کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ گوالیار میں ہر سال دسمبر میں تان سین کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

یو این آئی

تان سین کی بیوی کا نام حسینی تھا۔ وہ رانی مرگنینی کی داسی تھیں۔ تان سین کے چار بیٹے، سرت سین، شرت سین، ترنگ سین اور ولاس خان تھے جبکہ ان کے یہاں ایک بیٹی کی بھی پیدائش ہوئی جس کا نام سرسوتی تھا۔ تان سین کے تمام بچے بھی موسیقار تھے۔

تان سین شمالی بھارت کے کلاسیکل میوزک کے مایہ ناز سنگیت کار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم مدھیہ پردیش میں حاصل کی۔ انہیں تان سین کا نام سوامی ہری داس نے دیا تھا جو ان کی آواز سن کر جھوم اٹھے۔ سوامی ہری داس کے پا س تان سین نے بارہ برسوں کی عمر تک سنگیت کی تعلیم پائی۔ انہوں نے ساہتیہ اور سنگیت شاستر کی تعلیم بھی حاصل کی۔

جس وقت تان سین کی پیدائش ہوئی اس وقت گوالیار پر راجا مان سنگھ تومر کی حکومت تھی۔ ان کے دور حکومت میں گوالیار سنگیت کا مرکز کہا جاتا تھا۔ جہاں بیجو باورا، کرن اور محمود جیسے عظیم سنگیت کار اور گلوکار تھے۔

تان سین کی سنگیت کی تعلیم بھی اسی ماحول میں ہوئی۔ راجہ مان سنگھ تومر کی موت کے بعد اور وکرم جیت سے گوالیار کا راج پاٹھ چھن جانے کے بعد یہاں سنگیت منڈلی بکھرنے لگی۔ تب تان سین بھی ورندرا بن چلے گئے اور وہاں انہوں نے سوامی ہر ی داس جی سے سنگیت کی اعلی تعلیم حاصل کی۔

ابتدا سے ہی تان سین میں دوسروں کی نقل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ بچپن میں تان سین مویشیوں، پرندوں کی طرح طرح کی بولیاں کی نقل اتارا کرتے تھے اور جنگلی جانوروں کی بولیاں سیکھ کر وہ لوگوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے۔ اسی درمیان سوامی ہری داس سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان کی ملاقات کا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔

سوامی ہری داس ان کی مختلف بولیاں کو بولنے کی صلاحیت کو دیکھ کر کافی متاثر ہوئے۔ سوامی جی نے انہیں ان کے والد سے سنگیت سکھانے کے لئے مانگ لیا۔ اس طرح تان سین کو سنگیت کا علم حاصل ہوا۔ چھ برس کی عمر سے ہی انہوں نے موسیقی میں اپنی مہارت دکھانا شروع کر دی تھی۔ وہ سوامی ہری داس کے بھگت تھے۔

بے شمار راگوں کو موجودہ فنی شکل تان سین ہی نے دی۔ درباری کانپڑا، میاں کی ٹوڈی اور میاں کا سارنگ جیسے راگ بھی انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔

سنگیت سمراٹ تان سین کی نگری گوالیار کے لئے کہاوت مشہور ہے کہ جب یہاں بچے روتے ہیں تو سُر میں روتے ہیں اوراس شہر نے زمانہ قدیم سے آج تک ایک سے بڑھ کر ایک باصلاحیت سنگیت کار دنیا کو دیئے ہیں اورسُر اور سنگیت کے مایہ ناز فنکار میاں تان سین ان سب پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں۔

اکبر کے نورتن میں شامل کیے جانے کے بعد لوگ ادب سے ان کو میاں تان سین کہتے تھے اکبر خاص موقعوں پر ان سے راگ اور آلاپ کی فرمائش کرتے تھے۔ سنگیت سمراٹ تان سین اکبر کے انمول نورتنوں میں سے ایک تھے۔ سنگیت کے بغیر اکبر کا دربار سونا رہتا تھا۔

ایک بار اکبر نے نورتن کو دیپک راگ گانے کو کہا، تان سین نے انہیں بتایا کہ دیپک راگ گانے کا انجام کافی برا ہوسکتا ہے ۔ لیکن اکبر نے ان کی ایک نہ سنی۔ آخر کار انہیں یہ راگ گانا پڑا۔ ان کے گاتے ہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چاروں طرف سے آگ کی لپٹیں نکل رہی ہیں۔

سامعین سے گرمی کی شدت نہ جھیل سکے اور وہ دربار سے بھاگ نکلے۔ لیکن تان سین کا جسم گرمی کی شدت سے جھلسنے لگا۔ اس گرمی کی شدت صرف میگھ راگ سے ہی ختم ہوسکتی تھی۔ کہاجاتا ہے کہ تان سین کی بیٹی سرسوتی نے میگھ راگ سنا کر اپنے باپ کی جان کی حفاظت کی۔ بعد میں اکبر کو اپنی اس فرمائش پر بہت شرمندہ ہونا پڑا۔

سنگیت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تان سین ملک کے دورے پر نکل پڑے۔ انہوں نے مختلف مقامات کا سفر کیا اور وہاں انہوں نے سنگیت کے جوہر دکھائے انہیں شہرت تو بہت ملی لیکن گزارے لائق اجرت نہیں مل پائی۔ایک بار وہ ریوا (مدھیہ پردیش) کے راجہ رام چندر کے دربار میں گانے آئے۔

انہوں نے تان سین کا نام تو سنا تھا پر کبھی ان کا گانا نہیں سنا تھا۔ اس دن تان سین کا گانا سن کر راجہ رام چندر بہت متاثر ہوئے اسی دن سے تان سین ریوا میں ہی رہنے لگے اور انہیں راج گائک کے طور پر رکھ لیا گیا۔

انہیں ہر طرح کی مالی اور سماجی سہولیات فراہم کرائی گئیں اور ان کی عزت افزائی کی گئی۔ تان سین تقریباً 50 سال کی عمر تک یہیں رہے۔ برصغیر کی کلاسیکی موسیقی تان سین کے راگوں پر ہی زندہ ہے۔ اس کے بعد آنے والے استادوں نے راگ ودیا میں تبدیلی یا نئے تجربے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور عملاً یہ راگ اسی حالت میں ہیں جس میں تان سین نے ان کی تکمیل کی تھی۔

تان سین کی پرانی تصویروں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کا رنگ سانولا تھا۔ موچھیں پتلی تھیں، وہ سفید پگڑی باندھتے تھے۔ سفید چولا پہنتے تھے۔ کمر میں بدھی باندھتے تھے۔ دھروپد گانے میں تان سین کی کوئی برابری نہیں کرسکتا تھا۔

تان سین کی برسی گوالیار میں ہر سال منائی جاتی ہے۔ جہاں فن موسیقی کے شائقین کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔تان سین کا انتقال 5 مئی 1589 کو 80 برس کی عمر میں دہلی میں ہوا۔ اکبر نے خود جنازے میں شرکت کی۔

مزید پڑھیں:

بالی ووڈ میں ڈیبو کریں گے ناگا چیتنیا

تان سین کو گوالیار میں صوفی سنت شیخ محمد غوث کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ گوالیار میں ہر سال دسمبر میں تان سین کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.