ETV Bharat / sitara

آج بھی پنچم دا کی آواز ذرے ذرے میں گونج رہی ہے

author img

By

Published : Jan 4, 2020, 1:26 PM IST

بالی ووڈ میں اپنی شیریں موسیقی سے سامعین کے دلوں پرجادو کرنے والے عظیم موسیقارراہل دیو برمن عرف آر ڈی برمن آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن آج بھی ان کی آواز ذرہ ذرہ میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جسے سن کر سامعین کے دل سے بس ایک ہی صدا نکلتی ہے'چرا لیا ہے تم نے جو دل کو.....'۔

special story on rd burman death anniversary
آج بھی پنچم دا کی آواز ذرے ذرے میں گونج رہی ہے

آر ڈی برمن کی پیدائش 27 جون 1939 کو کلکتہ میں ہوئی، آج پنچم دا کی برسی ہے، ان کا انتقال 4 جنوری 1994 کو ممبئی میں ہوا۔ ان کے والد ایس ڈی برمن مشہور فلمی موسیقار تھے۔گھر میں موسیقی کا ماحول ہونے کی وجہ سے ان کا رجحان بھی موسیقی کی جانب ہو گیا۔ انہوں نے اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ استاد علی اکبر خان سے سرود کی تعلیم حاصل کی۔

فلم انڈسٹری میں پنچم کے نام سے مشہور آر ڈی برمن کو یہ نام اس وقت ملا جب انہوں نے اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سر 'سارے گاماپا' گا کر سنایا۔

نو برس کی چھوٹی سی عمر میں پنچم دا نے اپنی پہلی دھن 'اے میری ٹوپی پلٹ کے آ' بنائی۔ بعدازاں ان کے والد سچن دیو برمن نے اس دھن کا استعمال 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم فنٹوش میں کیا۔ علاوہ ازیں ان کی تیار کردہ دھن 'سر جو تیرا چکرائے' بھی گرودت کی فلم 'پیاسا' میں استعمال کی گئی۔

آر ڈی برمن نے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بطورمعاون موسیقار کے طور پر کیا۔ ان فلموں میں 'چلتی کا نام گاڑی( 1958) اور کاغذ کے پھول (1959) جیسی سپر ہٹ فلمیں بھی شامل ہیں۔

بطور موسیقار انہوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز سال 1961 میں اداکار محمود کی فلم 'چھوٹے نواب' سے کیا تھا لیکن اس فلم سے انہیں کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوئی۔

فلم چھوٹے نواب میں آر ڈی برمن کے کام کرنے کا قصہ کافی دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کہ فلم چھوٹے نواب کے لیے محمود، موسیقار ایس ڈی برمن کو لینا چاہتے تھے لیکن ان کی ایس ڈی برمن سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔آر ڈی برمن چونکہ ایس ڈی برمن کے بیٹے تھے لہٰذا محمود نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بارے میں آر ڈی برمن سے بات کریں گے۔

ایک دن محمود آرڈی برمن کو اپنی گاڑی میں بٹھا کرسیر و تفریح کے لئے نکل گئے۔ سفر اچھا تھا اس لیے آر ڈی برمن اپنا ماؤتھ آرگن نکال کر بجانے لگے۔ ان کی دھن سے محمود اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایس ڈی برمن کے بجائے آر ڈی برمن کو اپنی فلم چھوٹے نواب میں موسیقی دینے کا موقع فراہم کیا۔

دریں اثنا آر ڈی برمن نے اپنے والد کے ساتھ بطورمعاون موسیقار، فلم بندنی (1963) تین دیویاں(1965) اور گائیڈ جیسی فلموں کے لیے بھی موسیقی دی۔

پنچم دابطور موسیقار کسی حد تک 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم 'بھوت بنگلہ' سے فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم کا گانا 'آؤ ٹوسٹ کریں' سامعین میں بہت مقبول ہوا۔

آر ڈی برمن نے فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے تقریباً 10 برسوں تک کافی محنت و مشقت کی۔ فلم ساز و ہدایت کار ناصر حسین کی فلم 'تیسری منزل' (1966) کاسپر ہٹ گانا 'آجا آجا میں ہوں پیار ترا' اور 'او حسینہ زلفوں والی' جیسے سدا بہار نغموں نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔

سال 1972 پنچم دا کے فلمی کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس سال ان کی موسیقی کا جادو فلم 'سیتا اور گیتا'، 'میرے جیون ساتھی'، 'بامبے ٹو گوا' ، 'پریچے' اور 'جوانی دیوانی' جیسی کئی فلموں میں چھایا رہا۔

پنچم دا نے 1975 میں رمیش سپی کی سپر ہٹ فلم 'شعلے' میں 'محبوبہ محبوبہ' گاکر الگ سماں باندھا جبکہ 'آندھی'، 'دیوار'، اور 'خوشبو' جیسی کئی فلموں میں ان کی موسیقی کا جادو سامعین کے سرچڑھ کر بولا۔

موسیقی کے شعبہ میں تجربہ کرنے میں مہارت رکھنے والے آر ڈی برمن مشرق و مغرب کی موسیقی کے امتزاج سے نئی دھن تیار کرتے تھے۔ حالانکہ اس کے لیے انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس جدید طرز کی موسیقی میں گلوکاری کرنے کے لیے انہیں ایک ایسی آواز کی تلاش تھی جو ان کی موسیقی سے ہم آہنگ ہو۔

یہ آواز انہیں معروف گلوکارہ آشا بھونسلے میں ملی۔ فلم تیسری منزل کے لیے آشا بھونسلے نے 'آجا آجا میں ہوں پیار ترا' 'او حسینہ زلفوں والی' اور 'او میرے سونا رے سونارے' جیسے نغمے گائے۔

ان گیتوں کے ہٹ ہونے کے بعد آر ڈی برمن نے اپنی موسیقی میں پلے بیک سنگنگ کے لیے آشا بھونسلے کا ہی انتخاب کیا۔ پنچم دا اور آشا بھوسلے گیت اور موسیقی میں کافی دنوں تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے نبھاتے بالآخر زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کے ہوگئے اور اپنے سپر ہٹ نغموں سے سامعین کو مسحور کرتے رہے۔

special story on rd burman death anniversary
آر ڈی برمن اور آشا بھوسلے

سال 1985 میں روپہلے پردے پر آنے والی فلم 'ساگر' کی ناکامی کے بعد فلم سازوں ا ور ہدایت کاروں نے ان سے منہ موڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کو دوسرا جھٹکا تب لگاجب فلم ساز و ہدایت کار سبھاش گھئی نے فلم 'رام لکھن' میں ان کی جگہ موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کو سائن کر لیا۔ لیکن بعد میں 'اجازت'، 'لباس'، 'پرندہ'، 1942 ایک 'لو اسٹوری' میں بھی ان کی موسیقی کوکافی پسند کیا گیا۔

موسیقی میں ہدایت کاری کے علاوہ پنچم دا نے کئی فلموں کے لیے اپنی آواز بھی دی۔ ہمہ جہت صلاحیت کے حامل آر ڈی برمن نے فلم 'بھوت بنگلہ' (1965) اور 'پیار کا موسم' (1969) جیسی فلموں میں اپنی اداکاری سے بھی سامعین سے داد و تحسین حاصل کی۔

چار دہائی سے بھی زیادہ طویل اپنے فلمی کیریئر کے دوران آر ڈی برمن نے تقریباً 300 ہندی فلموں کے لیے موسیقی دی۔ ہندی فلموں کے علاوہ بنگلہ، تیلگو، تمل، آسامی اور مراٹھی فلموں میں بھی ان کی موسیقی کا جادو چھایا رہا۔


پنچم دا کو اپنے فلمی کیریئر میں تین مرتبہ بہترین موسیقار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازاگیا۔ ان میں فلم 'صنم تیری قسم' اور 1942 ' اے لوسٹوری' شامل ہیں۔

فلموں میں موسیقی دینے کے ساتھ ساتھ پنچم دا غیر فلمی نغموں کی موسیقی سے بھی سامعین کے دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ امریکہ کے معروف موسیقار جوس فلوریس کے ساتھ ان کا تیار کردہ البم 'پنٹیرا' کافی مقبول ہوا۔

چار دہائیوں تک اپنی سریلی موسیقی کی لہروں سے سامعین کو محظوظ کرنے والے پنچم دا 4 جنوری 1994 کو اس دنیا سے کوچ کرگئے۔

آر ڈی برمن کی پیدائش 27 جون 1939 کو کلکتہ میں ہوئی، آج پنچم دا کی برسی ہے، ان کا انتقال 4 جنوری 1994 کو ممبئی میں ہوا۔ ان کے والد ایس ڈی برمن مشہور فلمی موسیقار تھے۔گھر میں موسیقی کا ماحول ہونے کی وجہ سے ان کا رجحان بھی موسیقی کی جانب ہو گیا۔ انہوں نے اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ استاد علی اکبر خان سے سرود کی تعلیم حاصل کی۔

فلم انڈسٹری میں پنچم کے نام سے مشہور آر ڈی برمن کو یہ نام اس وقت ملا جب انہوں نے اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سر 'سارے گاماپا' گا کر سنایا۔

نو برس کی چھوٹی سی عمر میں پنچم دا نے اپنی پہلی دھن 'اے میری ٹوپی پلٹ کے آ' بنائی۔ بعدازاں ان کے والد سچن دیو برمن نے اس دھن کا استعمال 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم فنٹوش میں کیا۔ علاوہ ازیں ان کی تیار کردہ دھن 'سر جو تیرا چکرائے' بھی گرودت کی فلم 'پیاسا' میں استعمال کی گئی۔

آر ڈی برمن نے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بطورمعاون موسیقار کے طور پر کیا۔ ان فلموں میں 'چلتی کا نام گاڑی( 1958) اور کاغذ کے پھول (1959) جیسی سپر ہٹ فلمیں بھی شامل ہیں۔

بطور موسیقار انہوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز سال 1961 میں اداکار محمود کی فلم 'چھوٹے نواب' سے کیا تھا لیکن اس فلم سے انہیں کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوئی۔

فلم چھوٹے نواب میں آر ڈی برمن کے کام کرنے کا قصہ کافی دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کہ فلم چھوٹے نواب کے لیے محمود، موسیقار ایس ڈی برمن کو لینا چاہتے تھے لیکن ان کی ایس ڈی برمن سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔آر ڈی برمن چونکہ ایس ڈی برمن کے بیٹے تھے لہٰذا محمود نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بارے میں آر ڈی برمن سے بات کریں گے۔

ایک دن محمود آرڈی برمن کو اپنی گاڑی میں بٹھا کرسیر و تفریح کے لئے نکل گئے۔ سفر اچھا تھا اس لیے آر ڈی برمن اپنا ماؤتھ آرگن نکال کر بجانے لگے۔ ان کی دھن سے محمود اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایس ڈی برمن کے بجائے آر ڈی برمن کو اپنی فلم چھوٹے نواب میں موسیقی دینے کا موقع فراہم کیا۔

دریں اثنا آر ڈی برمن نے اپنے والد کے ساتھ بطورمعاون موسیقار، فلم بندنی (1963) تین دیویاں(1965) اور گائیڈ جیسی فلموں کے لیے بھی موسیقی دی۔

پنچم دابطور موسیقار کسی حد تک 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم 'بھوت بنگلہ' سے فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم کا گانا 'آؤ ٹوسٹ کریں' سامعین میں بہت مقبول ہوا۔

آر ڈی برمن نے فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے تقریباً 10 برسوں تک کافی محنت و مشقت کی۔ فلم ساز و ہدایت کار ناصر حسین کی فلم 'تیسری منزل' (1966) کاسپر ہٹ گانا 'آجا آجا میں ہوں پیار ترا' اور 'او حسینہ زلفوں والی' جیسے سدا بہار نغموں نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔

سال 1972 پنچم دا کے فلمی کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس سال ان کی موسیقی کا جادو فلم 'سیتا اور گیتا'، 'میرے جیون ساتھی'، 'بامبے ٹو گوا' ، 'پریچے' اور 'جوانی دیوانی' جیسی کئی فلموں میں چھایا رہا۔

پنچم دا نے 1975 میں رمیش سپی کی سپر ہٹ فلم 'شعلے' میں 'محبوبہ محبوبہ' گاکر الگ سماں باندھا جبکہ 'آندھی'، 'دیوار'، اور 'خوشبو' جیسی کئی فلموں میں ان کی موسیقی کا جادو سامعین کے سرچڑھ کر بولا۔

موسیقی کے شعبہ میں تجربہ کرنے میں مہارت رکھنے والے آر ڈی برمن مشرق و مغرب کی موسیقی کے امتزاج سے نئی دھن تیار کرتے تھے۔ حالانکہ اس کے لیے انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس جدید طرز کی موسیقی میں گلوکاری کرنے کے لیے انہیں ایک ایسی آواز کی تلاش تھی جو ان کی موسیقی سے ہم آہنگ ہو۔

یہ آواز انہیں معروف گلوکارہ آشا بھونسلے میں ملی۔ فلم تیسری منزل کے لیے آشا بھونسلے نے 'آجا آجا میں ہوں پیار ترا' 'او حسینہ زلفوں والی' اور 'او میرے سونا رے سونارے' جیسے نغمے گائے۔

ان گیتوں کے ہٹ ہونے کے بعد آر ڈی برمن نے اپنی موسیقی میں پلے بیک سنگنگ کے لیے آشا بھونسلے کا ہی انتخاب کیا۔ پنچم دا اور آشا بھوسلے گیت اور موسیقی میں کافی دنوں تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے نبھاتے بالآخر زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کے ہوگئے اور اپنے سپر ہٹ نغموں سے سامعین کو مسحور کرتے رہے۔

special story on rd burman death anniversary
آر ڈی برمن اور آشا بھوسلے

سال 1985 میں روپہلے پردے پر آنے والی فلم 'ساگر' کی ناکامی کے بعد فلم سازوں ا ور ہدایت کاروں نے ان سے منہ موڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کو دوسرا جھٹکا تب لگاجب فلم ساز و ہدایت کار سبھاش گھئی نے فلم 'رام لکھن' میں ان کی جگہ موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کو سائن کر لیا۔ لیکن بعد میں 'اجازت'، 'لباس'، 'پرندہ'، 1942 ایک 'لو اسٹوری' میں بھی ان کی موسیقی کوکافی پسند کیا گیا۔

موسیقی میں ہدایت کاری کے علاوہ پنچم دا نے کئی فلموں کے لیے اپنی آواز بھی دی۔ ہمہ جہت صلاحیت کے حامل آر ڈی برمن نے فلم 'بھوت بنگلہ' (1965) اور 'پیار کا موسم' (1969) جیسی فلموں میں اپنی اداکاری سے بھی سامعین سے داد و تحسین حاصل کی۔

چار دہائی سے بھی زیادہ طویل اپنے فلمی کیریئر کے دوران آر ڈی برمن نے تقریباً 300 ہندی فلموں کے لیے موسیقی دی۔ ہندی فلموں کے علاوہ بنگلہ، تیلگو، تمل، آسامی اور مراٹھی فلموں میں بھی ان کی موسیقی کا جادو چھایا رہا۔


پنچم دا کو اپنے فلمی کیریئر میں تین مرتبہ بہترین موسیقار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازاگیا۔ ان میں فلم 'صنم تیری قسم' اور 1942 ' اے لوسٹوری' شامل ہیں۔

فلموں میں موسیقی دینے کے ساتھ ساتھ پنچم دا غیر فلمی نغموں کی موسیقی سے بھی سامعین کے دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ امریکہ کے معروف موسیقار جوس فلوریس کے ساتھ ان کا تیار کردہ البم 'پنٹیرا' کافی مقبول ہوا۔

چار دہائیوں تک اپنی سریلی موسیقی کی لہروں سے سامعین کو محظوظ کرنے والے پنچم دا 4 جنوری 1994 کو اس دنیا سے کوچ کرگئے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.