ETV Bharat / sitara

Farooq Sheikh Death Anniversary: فاروق شیخ نے متوازی فلموں میں ایک خاص پہچان بنائی - فاروق شیخ کی فلمیں

اپنی شاندار اداکاری سے سامعین کو مسحور کرنے والے فاروق شیخ کی آٹھویں برسی ہے۔ Farooq Sheikh Death Anniversary فاروق شیخ نے بھارتی سنیما کو فلم 'چشم بدور'، کسی سے نہ کہنا'، 'کتھا' اور فلم 'عمراؤ جان' جیسی شاندار فلمیں دیں۔ Farooq Sheikh Films

فاروق شیخ نے متوازی فلموں میں ایک خاص پہچان بنائی
فاروق شیخ نے متوازی فلموں میں ایک خاص پہچان بنائی
author img

By

Published : Dec 27, 2021, 8:00 PM IST

فاروق شیخ کو بالی ووڈ میں ایک ایسے اداکار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے متوازی سنیما کے ساتھ ساتھ تجارتی سنیما میں بھی ناظرین کے درمیان اپنی پہچان بنائی۔

فاروق شیخ 25 مارچ 1948 کو ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مصطفی شیخ ممبئی کے معروف وکیل تھے۔ فاروق شیخ نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ میری اسکول ممبئی سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی مزید تعلیم سینٹ زیویئر کالج ممبئی سے مکمل کی۔اسی دوران فاروق شیخ نے سدھارتھ کالج سے قانون کی تعلیم مکمل کی اور پونے فلم انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے بھارتی جن ناٹیہ سنگھ (اپٹا) میں شمولیت اختیار کی اور ساگر سرحدی کے ہدایت کاری میں کئی ڈراموں میں کام کیا۔ Farooq Sheikh Hindi Film Career

فاروق شیخ فلم انڈسٹری میں بطور اداکار اپنی شناخت بنانے کے لیے ستر کی دہائی میں ممبئی چلے گئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز سال 1973 میں ریلیز ہونے والی فلم 'گرم ہوا' سے کیا۔ اگرچہ پوری فلم اداکار بلراج ساہنی پر مبنی تھی لیکن فاروق شیخ ناظرین میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔

فاروق شیخ نے تقریباً چھ سال ممبئی میں جدوجہد کی۔ ہر کوئی یقین دلاتا تھا لیکن کام کرنے کا موقع کسی نے نہیں دیا۔ حالانکہ اس دوران انہیں لیجنڈری ہدایت کار ستیہ جیت رے کی فلم 'شترنج کے کھلاڑی' میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن انہیں زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔

فاروق شیخ کی قسمت پروڈیوسر ڈائریکٹر یش چوپڑا کی 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم نوری سے چمکی۔ بہترین گانوں، موسیقی اور اداکاری والی اس فلم کی کامیابی نے نہ صرف انہیں بلکہ اداکارہ پونم ڈھلوں کو بھی اسٹار کے طور پر قائم کیا۔ فلم میں لتا منگیشکر کی آواز میں گایا گیا گانا 'آجا رے آجا رے میرے دلبر آجا' آج بھی سامعین کو مسحور کرتا ہے۔

سال 1981 میں فاروق شیخ کے سینی کیریئر کی ایک اور اہم فلم 'عمراؤ جان' ریلیز ہوئی۔ مرزا ہادی رسوا کے مشہور اردو ناول پر مبنی اس فلم میں انہوں نے نواب سلطان کا کردار ادا کیا جو عمراؤ جان سے محبت کرتا ہے۔ فاروق شیخ نے اس کردار کو اتنی سنجیدگی سے نبھایا کہ آج بھی سنیما شائقین انہیں نہیں بھولے۔ اس فلم کے سدا بہار گانے آج بھی سامعین کو مسحور کرتے ہیں۔

خیام کی موسیقی کی ہدایت کاری میں آشا بھوسلے کی سریلی آواز میں گائے گانے 'آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزار وں ہیں'، 'دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے'، آج بھی سامعین میں شوق سےسنے جاتے ہیں۔ اس فلم کے لیے آشا بھوسلے کو اپنے کیرئیر کا پہلا نیشنل ایوارڈ ملا اور خیام کو بہترین موسیقار کا نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔

سال 1981 میں فاروق شیخ کے سینی کیریئر کی ایک اور سپر ہٹ فلم 'چشم بدور' ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں فاروق شیخ کی اداکاری کو نیا رنگ ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کو خوب لطف اندوز کیا ۔

سال 1982 میں فاروق شیخ کے سینی کیریئر کی ایک اور اہم فلم 'بازار' ریلیز ہوئی۔ ساگر سرحدی کی ہدایت کاری میں بنی اس فلم میں ان کے مدمقابل آرٹ فلم کی معروف اداکارہ سمیتا پاٹل اور نصرالدین شاہ جیسے اداکار تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنے کردار کے ذریعے ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہے۔

سال 1983 میں فاروق شیخ کو ایک بار پھر سائی پرانجپے کی فلم کتھا میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کی کہانی میں ایک جدید کچھوے اور خرگوش کے درمیان ریس کی لڑائی کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں فاروق شیخ خرگوش کے کردار میں جبکہ نصیرالدین شاہ کچھوے کے کردار میں نظر آئے۔ فاروق شیخ نے اس فلم میں کسی حد تک منفی کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود وہ سامعین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔

سال 1987 میں ریلیز ہونے والی فلم 'بیوی ہو تو ایسی' فاروق شیخ کے بطور ہیرو کیرئیر کی آخری فلم تھی۔ اس فلم میں انہوں نے اداکارہ ریکھا کے ساتھ کام کیا تھا۔ 90 کی دہائی میں اچھے کردار نہ ملنے کی وجہ سے شیخ نے فلموں میں کام کرنا کافی حد تک کم کر دیا۔

90 کی دہائی میں فاروق شیخ نے بھی شائقین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے چھوٹی اسکرین کا رخ کیا اور کئی سیریلز میں کامیڈی پرفارمنس سے ناظرین کو محظوظ کیا۔ اس سب کے ساتھ انہوں نے 'جینا اسی کا نام ہے' میں میزبان کے طور پر ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔ سال 1997 میں ریلیز ہونے والی فلم 'محبت' کے بعد انہوں نے تقریباً دس سال تک فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا۔ فاروق شیخ کے سینی کیریئر میں اداکارہ دیپتی نیول کے ساتھ ان کی جوڑی نظر آئی۔ یہ جوڑی پہلی بار سلور اسکرین پر 1981 کی فلم 'چشم بدور' میں ایک ساتھ نظر آئی تھی۔ اس کے بعد اس جوڑی نے ایک ساتھ 'کسی سے نہ کہنا'، 'کتھا'، 'ایک بار چلے آؤ'، 'رنگ برنگی' اور 'فاصلے' میں شائقین کو لطف اندوز کیا۔

فاروق شیخ ہندی فلم انڈسٹری کے ان چند اداکاروں میں سے ایک ہیں جو تعداد سے زیادہ فلم کے معیار پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس کے پیش نظر انہوں نے اپنے چار دہائیوں کے سینی کیریئر میں صرف 40 فلموں میں کام کیا ہے۔ اپنی شاندار اداکاری سے سامعین کو مسحور کرنے والے فاروق شیخ 27 دسمبر 2013 کو انتقال کر گئے۔ Farooq Sheikh Death Anniversary فاروق شیخ کی چند قابل ذکر فلمیں 'گمن'، 'ساتھ ساتھ'، 'کسی سے نہ کہنا'، 'رنگ' 'برنگی'، 'لاکھوں کی بات'، 'اب آئے گامزہ '، 'سلمیٰ'، 'فاصلے پیچھا کرو'، 'طوفان'، 'مایا میم صاحب'، 'محبت'، 'ساس بہو' اور 'سینسیکس'، 'یہ جوانی' ہے دیوانی وغیرہ۔

یو این آئی

فاروق شیخ کو بالی ووڈ میں ایک ایسے اداکار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے متوازی سنیما کے ساتھ ساتھ تجارتی سنیما میں بھی ناظرین کے درمیان اپنی پہچان بنائی۔

فاروق شیخ 25 مارچ 1948 کو ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مصطفی شیخ ممبئی کے معروف وکیل تھے۔ فاروق شیخ نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ میری اسکول ممبئی سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی مزید تعلیم سینٹ زیویئر کالج ممبئی سے مکمل کی۔اسی دوران فاروق شیخ نے سدھارتھ کالج سے قانون کی تعلیم مکمل کی اور پونے فلم انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے بھارتی جن ناٹیہ سنگھ (اپٹا) میں شمولیت اختیار کی اور ساگر سرحدی کے ہدایت کاری میں کئی ڈراموں میں کام کیا۔ Farooq Sheikh Hindi Film Career

فاروق شیخ فلم انڈسٹری میں بطور اداکار اپنی شناخت بنانے کے لیے ستر کی دہائی میں ممبئی چلے گئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز سال 1973 میں ریلیز ہونے والی فلم 'گرم ہوا' سے کیا۔ اگرچہ پوری فلم اداکار بلراج ساہنی پر مبنی تھی لیکن فاروق شیخ ناظرین میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔

فاروق شیخ نے تقریباً چھ سال ممبئی میں جدوجہد کی۔ ہر کوئی یقین دلاتا تھا لیکن کام کرنے کا موقع کسی نے نہیں دیا۔ حالانکہ اس دوران انہیں لیجنڈری ہدایت کار ستیہ جیت رے کی فلم 'شترنج کے کھلاڑی' میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن انہیں زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔

فاروق شیخ کی قسمت پروڈیوسر ڈائریکٹر یش چوپڑا کی 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم نوری سے چمکی۔ بہترین گانوں، موسیقی اور اداکاری والی اس فلم کی کامیابی نے نہ صرف انہیں بلکہ اداکارہ پونم ڈھلوں کو بھی اسٹار کے طور پر قائم کیا۔ فلم میں لتا منگیشکر کی آواز میں گایا گیا گانا 'آجا رے آجا رے میرے دلبر آجا' آج بھی سامعین کو مسحور کرتا ہے۔

سال 1981 میں فاروق شیخ کے سینی کیریئر کی ایک اور اہم فلم 'عمراؤ جان' ریلیز ہوئی۔ مرزا ہادی رسوا کے مشہور اردو ناول پر مبنی اس فلم میں انہوں نے نواب سلطان کا کردار ادا کیا جو عمراؤ جان سے محبت کرتا ہے۔ فاروق شیخ نے اس کردار کو اتنی سنجیدگی سے نبھایا کہ آج بھی سنیما شائقین انہیں نہیں بھولے۔ اس فلم کے سدا بہار گانے آج بھی سامعین کو مسحور کرتے ہیں۔

خیام کی موسیقی کی ہدایت کاری میں آشا بھوسلے کی سریلی آواز میں گائے گانے 'آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزار وں ہیں'، 'دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے'، آج بھی سامعین میں شوق سےسنے جاتے ہیں۔ اس فلم کے لیے آشا بھوسلے کو اپنے کیرئیر کا پہلا نیشنل ایوارڈ ملا اور خیام کو بہترین موسیقار کا نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔

سال 1981 میں فاروق شیخ کے سینی کیریئر کی ایک اور سپر ہٹ فلم 'چشم بدور' ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں فاروق شیخ کی اداکاری کو نیا رنگ ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کو خوب لطف اندوز کیا ۔

سال 1982 میں فاروق شیخ کے سینی کیریئر کی ایک اور اہم فلم 'بازار' ریلیز ہوئی۔ ساگر سرحدی کی ہدایت کاری میں بنی اس فلم میں ان کے مدمقابل آرٹ فلم کی معروف اداکارہ سمیتا پاٹل اور نصرالدین شاہ جیسے اداکار تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنے کردار کے ذریعے ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہے۔

سال 1983 میں فاروق شیخ کو ایک بار پھر سائی پرانجپے کی فلم کتھا میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کی کہانی میں ایک جدید کچھوے اور خرگوش کے درمیان ریس کی لڑائی کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں فاروق شیخ خرگوش کے کردار میں جبکہ نصیرالدین شاہ کچھوے کے کردار میں نظر آئے۔ فاروق شیخ نے اس فلم میں کسی حد تک منفی کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود وہ سامعین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔

سال 1987 میں ریلیز ہونے والی فلم 'بیوی ہو تو ایسی' فاروق شیخ کے بطور ہیرو کیرئیر کی آخری فلم تھی۔ اس فلم میں انہوں نے اداکارہ ریکھا کے ساتھ کام کیا تھا۔ 90 کی دہائی میں اچھے کردار نہ ملنے کی وجہ سے شیخ نے فلموں میں کام کرنا کافی حد تک کم کر دیا۔

90 کی دہائی میں فاروق شیخ نے بھی شائقین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے چھوٹی اسکرین کا رخ کیا اور کئی سیریلز میں کامیڈی پرفارمنس سے ناظرین کو محظوظ کیا۔ اس سب کے ساتھ انہوں نے 'جینا اسی کا نام ہے' میں میزبان کے طور پر ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔ سال 1997 میں ریلیز ہونے والی فلم 'محبت' کے بعد انہوں نے تقریباً دس سال تک فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا۔ فاروق شیخ کے سینی کیریئر میں اداکارہ دیپتی نیول کے ساتھ ان کی جوڑی نظر آئی۔ یہ جوڑی پہلی بار سلور اسکرین پر 1981 کی فلم 'چشم بدور' میں ایک ساتھ نظر آئی تھی۔ اس کے بعد اس جوڑی نے ایک ساتھ 'کسی سے نہ کہنا'، 'کتھا'، 'ایک بار چلے آؤ'، 'رنگ برنگی' اور 'فاصلے' میں شائقین کو لطف اندوز کیا۔

فاروق شیخ ہندی فلم انڈسٹری کے ان چند اداکاروں میں سے ایک ہیں جو تعداد سے زیادہ فلم کے معیار پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس کے پیش نظر انہوں نے اپنے چار دہائیوں کے سینی کیریئر میں صرف 40 فلموں میں کام کیا ہے۔ اپنی شاندار اداکاری سے سامعین کو مسحور کرنے والے فاروق شیخ 27 دسمبر 2013 کو انتقال کر گئے۔ Farooq Sheikh Death Anniversary فاروق شیخ کی چند قابل ذکر فلمیں 'گمن'، 'ساتھ ساتھ'، 'کسی سے نہ کہنا'، 'رنگ' 'برنگی'، 'لاکھوں کی بات'، 'اب آئے گامزہ '، 'سلمیٰ'، 'فاصلے پیچھا کرو'، 'طوفان'، 'مایا میم صاحب'، 'محبت'، 'ساس بہو' اور 'سینسیکس'، 'یہ جوانی' ہے دیوانی وغیرہ۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.