ETV Bharat / sitara

بوبی سے حیدر تک:وادی کے پُر سکون اور پُر تشدد ادوار کے عکاس مناظر

author img

By

Published : May 1, 2020, 4:58 PM IST

سینئر صحافی بلال بٹ نے بالی ووڈ کے دو مشہور اداکار عرفان خان اور رشی کپور کے انتقال اور ان دونوں اداکاروں کا کشمیر کے تعلق کے حوالے سے کہا کہ اداکار رشی کپور کی فلم ’بوبی‘ فلم کی وجہ سے کشمیر کی سیاحتی صنعت کو مزید فروغ ملا تھا اور اس سے جڑے لوگوں کے روزگار میں مزید وسعت پیدا ہوگئی تھی۔ جبکہ ’حیدر‘ فلم میں عرفان کے کردار نے کم از کم دورِ حاضر میں کشمیر سے متعلق فلمی دُنیا کے رویے کو تبدیل کردیا۔

بوبی سے حیدر تک:وادی کے پُر سکون اور پُر تشدد ادوار کے عکاس مناظر
بوبی سے حیدر تک:وادی کے پُر سکون اور پُر تشدد ادوار کے عکاس مناظر

فلمی دُنیا کے دو مشہور ستارے رشی کپور اور عرفان خان، اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہے۔ دونوں ہستیاں بھارت اور دُنیا بھر میں اپنے لاکھوں شیدائیوں کے اذہان پر اپنی خوبصورت چھاپ چھوڑ کر چلے گئے۔ رشی کپور نے ستر کی دہائی میں پے درپے مقبول فلموں کی وجہ سے بے پناہ شہرت حاصل کی اور اُس زمانے کے فلمی پردے پر ایک رومانی علامت بن گئے تھے۔ جن مقامات پر اُن کی یہ فلمیں فلمائی گئی تھیں، وہ مقامات سیاحوں، بالخصوص نوجوان جوڑوں کی توجہ کی مرکز بن گئیں۔

کشمیر کے سبزہ زار، چشمے و آبشار کپور کو کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے۔ شہرہ آفاق گلمرگ میں ’بوبی ہٹ‘ کے نام سے پہچانی جانے والی وہ کٹیا آج بھی عشق و محبت کی ایک علامت ہے، جس میں رشی کپور اور ڈمپل کباڈیہ پر مشہور گیت ’ہم تم اِک کمرے میں بند ہوں ‘ فلمایا گیا تھا۔ اس سیاحتی مقام پر آنے والے سیاح اس ہٹ کو ایک نظر دیکھ کر ہی اپنا دل دے بیٹھتے ہیں۔

کشمیر اور رشی کپور کے رومانوی تعلق کی یادیں سنہ 1990 کے بعد اُس وقت سے دھندلانے لگیں، جب بالی ووڈ نے اس خطے سے متعلق فلمساز منی رتنام کی ’روجا‘ جیسی فلمیں بنانا شروع کردیں، جن میں کشمیر کی عکاسی منفی انداز میں کی گئی۔ سنہ 1990 کی دہائی ایک ایسا دور تھا جب کشمیر میں پُرتشدد حالات بپا ہوئے اور فلمی دنیا نے اسے مزید بھیانک شکل میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ کشمیر سے متعلق بالی ووڈ کے اس نئے رویے کی وجہ سے کپور جیسے فلمی ستاروں کے لئے کشمیر کی اصل تصور کی عکاسی کرنے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ فلمی صنعت کی جانب سے کشمیر کی منفی عکاسی کے نتیجے میں سیاحتی ذوق رکھنے والے لوگوں کے لئے گویا کشمیر کے دروازے بند ہوگئے۔ اس منفی منظر کشی کے منفی اثرات اس خطے کے باشندوں، بالخصوص سیاحتی صنعت پر انحصار رکھنے والے لوگوں پر مرتب ہوگئے۔

کشمیر جس کی فضائیں بھی رومانس سے معطر ہیں، کپور کی فلموں کی عکس بندی کے لئے ایک دلکش مقام ثابت ہوا تھا۔ اُس دور میں فلمی پردے پر جوڑے یہاں کے خوبصورت مناظر میں نغمے گاتے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ لیکن سنہ 1990 کے بعد یہاں فلمائی گئیں فلموں میں عشق و محبت کی اس آماجگاہ کے معنیٰ ہی بدل کر رکھ دیئے گئے۔ ان فلموں کے رومانوی مناظر کو بھی خوف اور دہشت سے مہمیز کیا گیا۔ اس طرح کی غیر حقیقی عکاسی ایک لحاظ سے سازش اور دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔ کشمیر کے تناظر میں محبت کی داستانوں کو بھی شکوک و شبہات کے لبادے میں اوڑ کر دکھایا گیا۔ کپور کی فلموں میں استعمال کیا گیا ساز صوتی لحاظ سے سکون بخش ہوا کرتا تھا۔ لیکن بعد میں بننے والی فلموں میں استعمال کیا جانے والا ساونڈ ٹریک بھی ماحول میں خوف کا عنصر شامل کرتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے

سنہ 1990 کے بعد کشمیر میں فلمائی گئیں بالی ووڈ کی عمومی فلموں میں اس خطے اور یہاں کے مکینوں کی منفی تصویر کشی کی گئی۔

بڑے شہروں میں رہنے والے ساونڈ ڈیزائنرز نے کشمیر کی لطیف فضائوں کو تباہی و بربادی کی تصویر بنا کر پیش کیا۔ ان فلموں میں کشمیر میں رونما ہونے والے ہر واقعہ کو ایک بے مقصد تشدد کی لہر کا حصہ قرار دیا گیا۔ تسلسل کے ساتھ بنائی جانے والی اس طرح کی فلموں سے یہ تاثر قوی کردیا گیا کہ وادی بھر میں ایک گمراہ کن سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔

لیکن کشمیر سے متعلق بالی ووڈ کے اس مایوس کن رویے کے بیچ ’حیدر‘ فلم میں عرفان خان کے ’روح دار‘ کے نام سے نبھائے گئے کردار نے فلم سازوں کو کم بیش حقائق کی عکاسی کرنے پر آمادہ کردیا۔ ’سلم ڈاگ ملینر‘ نے اُنہیں کافی شہرت عطا کی تھی۔ اس کے بعد ’حیدر‘ فلم نے نہ صرف اُن کی مقبولیت میں اضافہ کردیا بلکہ بالی ووڈ فلم سازوں کو کشمیر کو حقیت پسندی کی عینک سے دیکھنے پر مائل بھی کیا۔ شاید اسی لئے ’شکارا‘ فلم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ عرفان خان کی جادوئی کارکردگی سے متاثر ہوکر بنائی گئی۔ حالانکہ اس فلم میں بھی کافی حد تک کشمیر کی مسخ شدہ تصویر ہی پیش کی گئی ہے۔

کپور اور عرفان دونوں کا کشمیر کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ تاہم دونوں کے ادوار مختلف رہے ہیں۔ اول الذکر کی کشمیر سے وابستگی کا دور قدرے پرسکون تھا۔ جبکہ ثانی الذکر کا دور وہ تھا جب یہ خطہ پُرتشدد حالات سے دوچار ہوچکا تھا۔ ضروری نہیں کہ ان کی فلمیں حقائق کی عکاس ہوں۔ لیکن کشمیر سے دونوں ستاروں کا تعلق نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ’بوبی‘ فلم کی وجہ سے یہاں کی سیاحتی صنعت کو مزید فروغ ملا تھا اور اس سے جڑے لوگوں کے روزگار میں مزید وسعت پیدا ہوگئی تھی۔ جبکہ ’حیدر‘ فلم میں عرفان کے کردار نے کم از کم دورِ حاضر میں کشمیر سے متعلق فلمی دُنیا کے رویے کو تبدیل تو کردیا۔

دونوں کپور اور عرفان کو کشمیر میں دو مختلف ادوار کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ ان میں سے ایک دور وہ ہے ، جس سے موجودہ نسل وابستہ ہے اور دوسرے دور، یعنی قدرے پر سکون دور کی بازیافت شاید مستقبل میں ممکن ہو۔ چونکہ دونوں ستاروں نے اپنے کردار غیر مقامی نکتہ نظر کے مطابق ادا کئے۔ اس لئے فلمی پردے پر ان کی پرفارمنس میں گلیمر بالکل عیاں ہے۔ دونوں کے کردار میں کشمیر کی حقیقی حالت زار کی عکاسی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقت میں فلمی صنعت میں سے کوئی اور کشمیر کی حقیقی تصویر پیش کرے گا ۔یعنی کشمیر کی ایک ایسی تصویر جس میں نہ صرف یہاں کا درد اور طیش جھلکتا ہو بلکہ اس کے حقیقی اسباب بھی بیان کئے جائیں۔ یہ وہ جزیات ہیں جو کشمیر کے پُرامن ماضی اور بعد میں رونما ہونے والے پُرتشدد حالات کا لازم و ملزوم حصہ رہے ہیں۔

فلمی دُنیا کے دو مشہور ستارے رشی کپور اور عرفان خان، اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہے۔ دونوں ہستیاں بھارت اور دُنیا بھر میں اپنے لاکھوں شیدائیوں کے اذہان پر اپنی خوبصورت چھاپ چھوڑ کر چلے گئے۔ رشی کپور نے ستر کی دہائی میں پے درپے مقبول فلموں کی وجہ سے بے پناہ شہرت حاصل کی اور اُس زمانے کے فلمی پردے پر ایک رومانی علامت بن گئے تھے۔ جن مقامات پر اُن کی یہ فلمیں فلمائی گئی تھیں، وہ مقامات سیاحوں، بالخصوص نوجوان جوڑوں کی توجہ کی مرکز بن گئیں۔

کشمیر کے سبزہ زار، چشمے و آبشار کپور کو کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے۔ شہرہ آفاق گلمرگ میں ’بوبی ہٹ‘ کے نام سے پہچانی جانے والی وہ کٹیا آج بھی عشق و محبت کی ایک علامت ہے، جس میں رشی کپور اور ڈمپل کباڈیہ پر مشہور گیت ’ہم تم اِک کمرے میں بند ہوں ‘ فلمایا گیا تھا۔ اس سیاحتی مقام پر آنے والے سیاح اس ہٹ کو ایک نظر دیکھ کر ہی اپنا دل دے بیٹھتے ہیں۔

کشمیر اور رشی کپور کے رومانوی تعلق کی یادیں سنہ 1990 کے بعد اُس وقت سے دھندلانے لگیں، جب بالی ووڈ نے اس خطے سے متعلق فلمساز منی رتنام کی ’روجا‘ جیسی فلمیں بنانا شروع کردیں، جن میں کشمیر کی عکاسی منفی انداز میں کی گئی۔ سنہ 1990 کی دہائی ایک ایسا دور تھا جب کشمیر میں پُرتشدد حالات بپا ہوئے اور فلمی دنیا نے اسے مزید بھیانک شکل میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ کشمیر سے متعلق بالی ووڈ کے اس نئے رویے کی وجہ سے کپور جیسے فلمی ستاروں کے لئے کشمیر کی اصل تصور کی عکاسی کرنے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ فلمی صنعت کی جانب سے کشمیر کی منفی عکاسی کے نتیجے میں سیاحتی ذوق رکھنے والے لوگوں کے لئے گویا کشمیر کے دروازے بند ہوگئے۔ اس منفی منظر کشی کے منفی اثرات اس خطے کے باشندوں، بالخصوص سیاحتی صنعت پر انحصار رکھنے والے لوگوں پر مرتب ہوگئے۔

کشمیر جس کی فضائیں بھی رومانس سے معطر ہیں، کپور کی فلموں کی عکس بندی کے لئے ایک دلکش مقام ثابت ہوا تھا۔ اُس دور میں فلمی پردے پر جوڑے یہاں کے خوبصورت مناظر میں نغمے گاتے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ لیکن سنہ 1990 کے بعد یہاں فلمائی گئیں فلموں میں عشق و محبت کی اس آماجگاہ کے معنیٰ ہی بدل کر رکھ دیئے گئے۔ ان فلموں کے رومانوی مناظر کو بھی خوف اور دہشت سے مہمیز کیا گیا۔ اس طرح کی غیر حقیقی عکاسی ایک لحاظ سے سازش اور دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔ کشمیر کے تناظر میں محبت کی داستانوں کو بھی شکوک و شبہات کے لبادے میں اوڑ کر دکھایا گیا۔ کپور کی فلموں میں استعمال کیا گیا ساز صوتی لحاظ سے سکون بخش ہوا کرتا تھا۔ لیکن بعد میں بننے والی فلموں میں استعمال کیا جانے والا ساونڈ ٹریک بھی ماحول میں خوف کا عنصر شامل کرتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے

سنہ 1990 کے بعد کشمیر میں فلمائی گئیں بالی ووڈ کی عمومی فلموں میں اس خطے اور یہاں کے مکینوں کی منفی تصویر کشی کی گئی۔

بڑے شہروں میں رہنے والے ساونڈ ڈیزائنرز نے کشمیر کی لطیف فضائوں کو تباہی و بربادی کی تصویر بنا کر پیش کیا۔ ان فلموں میں کشمیر میں رونما ہونے والے ہر واقعہ کو ایک بے مقصد تشدد کی لہر کا حصہ قرار دیا گیا۔ تسلسل کے ساتھ بنائی جانے والی اس طرح کی فلموں سے یہ تاثر قوی کردیا گیا کہ وادی بھر میں ایک گمراہ کن سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔

لیکن کشمیر سے متعلق بالی ووڈ کے اس مایوس کن رویے کے بیچ ’حیدر‘ فلم میں عرفان خان کے ’روح دار‘ کے نام سے نبھائے گئے کردار نے فلم سازوں کو کم بیش حقائق کی عکاسی کرنے پر آمادہ کردیا۔ ’سلم ڈاگ ملینر‘ نے اُنہیں کافی شہرت عطا کی تھی۔ اس کے بعد ’حیدر‘ فلم نے نہ صرف اُن کی مقبولیت میں اضافہ کردیا بلکہ بالی ووڈ فلم سازوں کو کشمیر کو حقیت پسندی کی عینک سے دیکھنے پر مائل بھی کیا۔ شاید اسی لئے ’شکارا‘ فلم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ عرفان خان کی جادوئی کارکردگی سے متاثر ہوکر بنائی گئی۔ حالانکہ اس فلم میں بھی کافی حد تک کشمیر کی مسخ شدہ تصویر ہی پیش کی گئی ہے۔

کپور اور عرفان دونوں کا کشمیر کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ تاہم دونوں کے ادوار مختلف رہے ہیں۔ اول الذکر کی کشمیر سے وابستگی کا دور قدرے پرسکون تھا۔ جبکہ ثانی الذکر کا دور وہ تھا جب یہ خطہ پُرتشدد حالات سے دوچار ہوچکا تھا۔ ضروری نہیں کہ ان کی فلمیں حقائق کی عکاس ہوں۔ لیکن کشمیر سے دونوں ستاروں کا تعلق نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ’بوبی‘ فلم کی وجہ سے یہاں کی سیاحتی صنعت کو مزید فروغ ملا تھا اور اس سے جڑے لوگوں کے روزگار میں مزید وسعت پیدا ہوگئی تھی۔ جبکہ ’حیدر‘ فلم میں عرفان کے کردار نے کم از کم دورِ حاضر میں کشمیر سے متعلق فلمی دُنیا کے رویے کو تبدیل تو کردیا۔

دونوں کپور اور عرفان کو کشمیر میں دو مختلف ادوار کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ ان میں سے ایک دور وہ ہے ، جس سے موجودہ نسل وابستہ ہے اور دوسرے دور، یعنی قدرے پر سکون دور کی بازیافت شاید مستقبل میں ممکن ہو۔ چونکہ دونوں ستاروں نے اپنے کردار غیر مقامی نکتہ نظر کے مطابق ادا کئے۔ اس لئے فلمی پردے پر ان کی پرفارمنس میں گلیمر بالکل عیاں ہے۔ دونوں کے کردار میں کشمیر کی حقیقی حالت زار کی عکاسی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقت میں فلمی صنعت میں سے کوئی اور کشمیر کی حقیقی تصویر پیش کرے گا ۔یعنی کشمیر کی ایک ایسی تصویر جس میں نہ صرف یہاں کا درد اور طیش جھلکتا ہو بلکہ اس کے حقیقی اسباب بھی بیان کئے جائیں۔ یہ وہ جزیات ہیں جو کشمیر کے پُرامن ماضی اور بعد میں رونما ہونے والے پُرتشدد حالات کا لازم و ملزوم حصہ رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.