قتیل شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ آپ 24دسمبر 1919کو ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے۔
1946 میں آپ لاہور آئے اور ماہنامہ ادب لطیف میں بطور اسٹنٹ ایڈیٹر کام کرنا شروع کیا۔
آپ نے پہلی مرتبہ فلم ’تیری یاد‘ کے گیت لکھے۔
بطور نغمہ نگار آپ کو کئی اہم اعزازات سے نوازا گیا۔
قتیل شفائی نے جگ جیت چِترا اور غلام علی کے ساتھ کئی البمز پر کام کیا۔
اُنھیں سنہ 1994میں ’پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔
اِس کے علاوہ، قتیل شفائی کو آدم جی ایوارڈ، نقوش ایوارڈ، اباسین آرٹ کونسل ایوارڈ اور امیر خسرو ایوارڈ بھی ملے۔
آپ کی شاعری عوام و خواص میں یکساں مقبول ہوئی
پاکستان اور بھارت کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں اُن کی شاعری کوشامل کیا گیا ہے۔
اردو کے کئی مقبول گلوکاروں نے اپنی آواز سے قتیل شفائی کے گیتوں اور غزلوں کو عوام تک پہنچایا۔
لاہور میں جہاں آپ کا قیام تھا اُس سڑک کو قتیل شفائی اسٹریٹ اور ہری پور میں جہاں وہ رہتے تھے محلہ قتیل شفائی کہا جاتا ہے۔
قتیل شفائی 11جولائی ، 2001ء کو اِس دنیا سے رخصت ہوئے۔
منتخب اشعار۔
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ آﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻼﺝ
ﺑﭧ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﺮﺍ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﻣﺴﯿﺤﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﺮ ﺑﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﮐﻮ ﺷﻌﻠﮧ ﻧﻮﺍ ﮐﮩﮧ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﻭ
ﯾﺎﺭﻭ ﺳﮑﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﻮ ﺻﺪﺍ ﮐﮩﮧ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﻭ
ﺗﻢ آ ﺳﮑﻮ ﺗﻮ ﺷﺐ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﻭ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ
ﺍﭘﻨﮯ ﮐﮩﮯ ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺢ ﮐﺎ ﺗﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ
ﺗﮭﮏ ﮔﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﯾﺎﺩ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ
ﺍﺏ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ آﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﺎﻡ آﮔﺌﯽ ﺩﯾﻮﺍﻧﮕﯽ ﺍﭘﻨﯽ
ﻭﮔﺮﻧﮧ ﮨﻢ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ
ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﺮﻭﮞ
ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﻏﻢ ﯾﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﺗﻮ ﺑﻨﺪ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺳﻮﭺ ﻟﻮ
ﭘﮍﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺳﺘﻢ ﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ
’حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گِرتا
ٹوٹے بھی جو تارہ تو زمیں پر نہیں گِرتا‘
’حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‘
’حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گِرتا
ٹوٹے بھی جو تارہ تو زمیں پر نہیں گِرتا‘
’بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں
اپنے خدا سے مانگ لی میں نے تیری وفا صنم‘
آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
’جب بھی آتا ہے میرا نام تیرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں‘