ETV Bharat / sitara

Guru Dutt Birth Anniversary: اداکار گرو دت کا 96 واں یوم پیدائش آج

آج اداکار گرودت کا 96 واں یوم پیدائش ہے۔ ان کی پیدائش 9 جولائی 1925 کو بنگلور میں ہوئی تھی۔ تاہم تعلیم کولکاتا میں حاصل کی تھی۔ گرو دت کا شمار بھارت کے عظیم اداکار، ہدایتکار اور فلمساز کے طور پر ہوتا ہے۔

Guru Dutt Birth Anniversary
اداکار گرو دت کا 96 واں یوم پیدائش آج
author img

By

Published : Jul 9, 2021, 12:48 PM IST

گرو دت 20 برس کی عمر میں ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا میں داخل ہوئے جہاں انہیں گیان مکھرجی اور امیہ چکرورتی جیسے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

انھیں دنوں ان کی ملاقات گورنمنٹ کالج لاہور سےتعلیم مکمل کرنے والے ایک خوبرو نوجوان دیو آنند سے ہوئی جو فلموں میں اداکار کے طور پر قسمت آزما رہے تھے۔ دونوں میں خاصی دوستی ہوگئی اور پھر دونوں میں ایک دوستانہ معاہدہ ہوا۔

اداکار گرو دت کا 96 واں یوم پیدائش آج

طے یہ پایا کہ اگر گرودت پہلے ہدایتکار بن جاتے ہیں تو وہ اپنی پہلی فلم میں دیوآنند کو کام کرنے کا موقع دیں گے اور اگر دیوآنند نے پہلے فلمسازی کی تو وہ گرودت کا انتخاب ڈائریکٹر کے طور پر کریں گے۔ اس واقعے کےتقریباً ڈھائی تین برسوں بعد دیو آنند کے بڑے بھائی نے اپنی فلم کمپنی شروع کرکے پہلی فلم 'بازی' کا اعلان کیا۔

دیوآنند اس فلم میں ہیرو تھے۔ انھوں نے وعدے کے مطابق ہدایتکاری کے فرائض گرو دت کے حوالے کردیئے اور یوں دونوں وعدے ایک ساتھ پورے ہوگئے۔

اکثر لوگ فلم 'بازی' کو گرو دت کی پہلی فلم سمجھتے ہیں لیکن گرو دت ’بازی‘ سے پہلے تین فلموں سے وابستہ رہے۔ یہ فلمیں ’لاکھا رانی‘ (1945ء)،’ ہم ایک ہی‘ (1946ء) اور’گرلز اسکول‘(1949ء) تھیں۔

کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ گرو دت نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز ایک ڈانس ڈائریکٹر کی حیثیت سے مشہور پربھات اسٹوڈیو میں فلم لاکھا رانی سے کیا۔ اُنہوں نے 1942ء سے 1944ء تک اُستاد اُدے شنکر کی المورا ڈانس اکیڈمی میں تربیت حاصل کی تھی۔

فلموں میں اپنے کیریئر میں اُنہوں نے بطور اداکار کُل 17 فلموں میں کام کیا اور اُن میں سے 8 فلمیں انہوں نے خود ڈائریکٹ کیں اور یہی فلمیں اُن کی سب سے بہترین فِلمیں بھی ثابت ہوئیں۔

ان کی مشہور فلموں میں 'صاحب، بیوی اور غلام' اور 'چودہویں کا چاند' شامل ہیں۔ جو خود ڈائریکٹ نہیں کیں۔ اگر گرو دت کی چار فلموں کو بے مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان میں دو مزاحیہ اور دو سنجیدہ فلمیں شامل ہیں۔

گرو دت کے کام کرنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ پہلے ایک کامیڈی بناتے اور اُس کے فوراً بعد ایک سنجیدہ فلم بنانا شروع کر دیتے۔ اگر محبوب خان، بمل رائے اور راج کپور کی فِلموں نے دیوداس کی صورت میں اس دور کے بھارتی نوجوان کی ایک الگ اور نئی تصویر پیش کی تو گُرو دت نے اُس مایوس سنجیدہ ہیرو کو ایک ذاتی اور سیاسی پہچان دی۔

ایک ایسے وقت میں جب بھارتی سنیما ایک نئے دور کی تلاش میں تھا ،گرو دت نے اپنی فلموں میں بہت سے مشکل مسائل اٹھا کر لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔

اِن سوالوں کے جواب شاید خود گرو دت کو آخر تک نہ مل سکے لیکن اِن سوالوں سے گرو دت نے بھارتی سِنیما کی ایک ایسی الگ تاریخ لکھی جس کا اثر آج بھی بھارتی سِنیما پر نظر آتا ہے۔

گُرو دت کو اُردو سے محبت تھی۔ اُن کی فِلموں میں ایسی اردو شاعری کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جس کا جنم بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ہوا اور جس کا اثر آج بھی فلم انڈسٹری پر صاف نظر آتا ہے۔ ساحر لدھیانوی کی اردو سے محبت کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یہ وہ اردو تھی جو خود گرو دت کے جذبات اور حالات سے واقف تھی۔

سنہ 1951 بمبئی کی فلمی صنعت کا ایک سنہری دور تھا۔ اُس برس دلیپ کمار اور نرگس کی دیدار اور ہلچل، مدھوبالا اور دلیپ کمار کی ترانہ، ہدایتکار ضیا سرحدی کی ہم لوگ اور راج کپور کی عالمی شہرت یافتہ فلم آوارہ بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اتنے سخت مقابلے کے باوجود گرُو دت کی فلم بازی نے اچھا خاصا بزنس کیا، اور پچیس برس کی عمر میں گرُو دت کو ایک مستند ہدایتکار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔سنہ 1952میں گرُو دت نے فلم جال ڈائرکٹ کی جو کہ جنوبی ہند کے ساحلی علاقے میں واقع ایک کرسچن بستی کی کہانی تھی۔

اگلے برس فلم ’بازی‘ بنائی جس میں بحری قذاقی کے موضوع کو آزمایا گیا اور ایک برس بعد گرودت کی معروف فلم آر پار سامنے آئی جو اپنی سادہ مگر پُر اثر کہانی، شیاما کی فطری اداکاری اور او پی نیر کی دلکش موسیقی کے باعث زبردست کامیاب ثابت ہوئی۔اس کے ایک برس بعد انہوں نے اپنے زمانے سے بہت آگے کی کہانی پر مبنی فلم مسٹر اینڈ مسز 55 پیش کی جسے آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی دیکھتے ہیں تو وہ بالکل نئی فلم معلوم پڑتی ہے۔’ آر پار‘ اور ’مسٹر اینڈ مسز ففٹی فائیو‘ کا شمار بھارت کی یادگار مزاحیہ فلموں میں کیا جاتا ہے جبکہ ’پیاسا‘ اور’ کاغذ کے پھول‘ نہ صرف بھارتی بلکہ عالمی سنیما کی دو نہایت ہی اہم فِلمیں مانی جاتی ہیں۔ اِن دو فِلموں میں سے ’پیاسا‘ ایک بہترین فلم تھی جو کافی مقبول ہوئی۔سنہ 1956 میں گرودت کی فلم سی آئی ڈی منظرِ عام پر آئی۔

بازی اور آر پار کی طرح یہ بھی جرم و سزا کی ایک کہانی تھی لیکن اس میں گرُو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا اور ہدایتکار کی ذاتی زندگی میں یہ واقع ایک انتہائی اہم موڑ ثابت ہوا۔سنہ 1953 میں گرودت نے اس زمانے کی معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کر لی تھی۔ اُن کے دو بیٹے بھی پیدا ہوچکے تھے اور زندگی بڑی خوشگوار گزر رہی تھی لیکن وحیدہ رحمان گرُو دت کی فلمی زندگی میں داخل ہوئی تو ان کی گھریلو زندگی میں ایک طوفان آگیا۔گیتا دت پر افسردگی اور جھنجھلاہٹ کے دورے پڑنے لگے۔ اس نے شوہر کی جاسوسی شروع کردی اور ایک روز کہیں سے اطلاع ملنے پر کار میں شوہر کا پیچھا شروع کر دیا کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ وحیدہ کے پاس جا رہے ہیں۔ جب شوہر کو پتہ چلا تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس روز سے ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار کھڑی ہوگئی۔گرُو دت کے دوستوں کی ہمدردیاں چونکہ ان کی بیوی کے ساتھ تھیں، اس لیے وہ ایک ایک کر کے گرودت سے دور ہونے لگے۔ گیتا دت نے بھی تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچوں کو لے کر وہاں چلی گئیں۔ وحیدہ نے جب دیکھا کہ گرودت کی تمام پریشانیوں کا الزام ان پر آرہا ہے تو وہ بھی کنارہ کش ہوگئی اور یوں گرودت بالکل تنہا رہ گئے۔

انہیں پریشانیوں کے دنوں میں ان کی فلم پیاسا ریلیز ہوئی جس میں ایک سچے فنکار کی مشکلات اور فن کے بارے میں دنیا والوں کی بے حسی کو پیش کیا گیا تھا۔فلمی مبصرین کے اندازوں اور پیش گوئیوں کے برعکس فلم پیاسا انتہائی کامیاب رہی۔ فلم میں ساحر لدھیانوی کی جس طرح کے گیت لکھے اس کا ایک ایک لفظ صورتِ حال پر سو فیصد درست بیٹھتا تھا۔ اس کامیابی سے حوصلہ پاکر گرُو دت نے فن کار کا حتمی المیہ پیش کرنے کے لیے ایک سوانحی فلم تیار کی جس میں ایک فلمی ہدایتکار کی زندگی پیش کی گئی تھی جو کہ بیوی اور محبوبہ کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ گیا ہے اور آخرکار شراب میں زندگی کو ہمیشہ کے لیے ڈبو کر ہر طرح کے مصائب سے آزاد ہوجاتا ہے۔

گرُو دت نے کاغذ کے پھول بڑے دل سے بنائی تھی اور اس کا مہورت دہلی میں نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کے ہاتھوں انجام پایا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ثابت ہوئی۔ اس ناکامی نے گرودت کو توڑ کے رکھ دیا۔ بطور ہدایتکار ان کی خود اعتمادی خاک میں مل گئی۔ حتٰی کہ جب فلم ’صاحب بی بی اور غلام‘ بن کر تیار ہوئی تو اس پر بطور ہدایتکار گرُو دت نے اپنا نام بھی نہیں دیا۔نو اکتوبر 1964 کی شام،گرُو دت کی بیشتر فلموں کے رائٹر اور ذاتی دوست ابرار علوی ان کے پاس تھے اور کھانے پینے کی محفل کے بعد رات کے ایک بجے تک اُن کی گپ شپ ہوتی رہی۔ باتوں باتوں میں اس پر بھی بحث ہوئی کہ بعض لوگ خود کشی کے لیے بڑی تعداد میں نیند کی گولیاں کھا لیتے ہیں لیکن پھر بھی موت دغا دے جاتی ہے اور انھیں اسپتال لے جاکر بچا لیا جاتا ہے۔ چنانچہ دونوں نے ہنسی مذاق میں اس بات پر اتفاق کیا کہ گولیاں پھانکنے کی بجائے انھیں باریک پیس کر پانی میں حل کر لینا چاہیئے تاکہ فوری اثر ہو۔ رات کے ایک بجے کے قریب گرُو دت نے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے اور ابرار علوی اپنے گھر چلے گئے۔

وہیں 10 اکتوبر 1964 کا دِن، گرودت کے چاہنے والوں کے لیے بڑا مایوس کن دن تھا۔ جب گیتا دت کے اصرار پر بیڈروم کا دروازہ توڑا گیا تو اندر بستر پر گرُو دت ابدی نیند سو رہے تھے۔

ابرار علوی نے دیکھا کہ میز کے نیچے ایک گلاس پڑا ہے جس میں پیلے رنگ کا گاڑھا سا کچھ محلول اب بھی پیندے سے لگا ہوا ہے، اور نیند کی گولیوں والی ڈبیہ خالی ہے۔خودکشی کی خبر جنگل کی آگ بن کر ہر طرف پھیل گئی۔ سب سے پہلے دیوآنند موقع پر پہنچے اور راج کپور کو خبر کی۔ وہاں سے یہ اطلاع پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری کو پہنچی۔ جانی واکر اور وحیدہ رحمان اس وقت مدراس میں شوٹنگ کر رہے تھے۔ خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر وہ بمبئی پہنچے۔ سہ پہر تک بمبئی کے سبھی فلمی ستارے اور دیگر اہم شخصیات گرُو دت کے فلیٹ پر جمع ہو چکی تھیں۔اگلے روز سب اخباروں کی سرخیوں میں گرُو دت موجود تھے۔ مشہور فلمی میگزین فلم فیئر نے گرُو دت کی یاد میں خصوصی شمارا نکالا جس میں کیفی اعظمی نے بھی گرُو دت کو خراجِ عقیدت پیش کیا جو اس طرح شروع ہوتا تھا۔رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی۔

یہ بھی پڑھیں: Sanjeev Kumar: اداکار سنجیو کمار کا 83 واں یومِ پیدائش آج

گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد ان کا مقدر بنی، 1970 کی دہائی میں ان کی فلمیں پھر سے مقبول ہونے لگیں اور 1980 میں ایک فرانسیسی محقق نے اُس پر اپنی ریسرچ شائع کی تو گرو دت کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔سنہ 1980 کے عشرے میں گرودت کی فلموں کے میلے پہلے فرانس میں اور پھر یورپ کے دیگر شہروں میں منعقد ہوئے۔ مشہور فِلم اسکالر لاورا ملوی نے سائٹ اینڈ ساونڈ میگزین میں گرو دت کی فلم 'پیاسا' کو دُنیا کی دس بہترین فلموں میں شمار کیا۔آج دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں بھارتی کمرشیل سنیما کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، گرُو دت کے نام لیوا موجود ہیں اور جو شاہکار وہ وقت سے پہلے تخلیق کر گئے تھے آج اُن کی تفہیم اور کامل تحسین کا ماحول بھی پیدا ہو چکا ہے۔

گرو دت 20 برس کی عمر میں ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا میں داخل ہوئے جہاں انہیں گیان مکھرجی اور امیہ چکرورتی جیسے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

انھیں دنوں ان کی ملاقات گورنمنٹ کالج لاہور سےتعلیم مکمل کرنے والے ایک خوبرو نوجوان دیو آنند سے ہوئی جو فلموں میں اداکار کے طور پر قسمت آزما رہے تھے۔ دونوں میں خاصی دوستی ہوگئی اور پھر دونوں میں ایک دوستانہ معاہدہ ہوا۔

اداکار گرو دت کا 96 واں یوم پیدائش آج

طے یہ پایا کہ اگر گرودت پہلے ہدایتکار بن جاتے ہیں تو وہ اپنی پہلی فلم میں دیوآنند کو کام کرنے کا موقع دیں گے اور اگر دیوآنند نے پہلے فلمسازی کی تو وہ گرودت کا انتخاب ڈائریکٹر کے طور پر کریں گے۔ اس واقعے کےتقریباً ڈھائی تین برسوں بعد دیو آنند کے بڑے بھائی نے اپنی فلم کمپنی شروع کرکے پہلی فلم 'بازی' کا اعلان کیا۔

دیوآنند اس فلم میں ہیرو تھے۔ انھوں نے وعدے کے مطابق ہدایتکاری کے فرائض گرو دت کے حوالے کردیئے اور یوں دونوں وعدے ایک ساتھ پورے ہوگئے۔

اکثر لوگ فلم 'بازی' کو گرو دت کی پہلی فلم سمجھتے ہیں لیکن گرو دت ’بازی‘ سے پہلے تین فلموں سے وابستہ رہے۔ یہ فلمیں ’لاکھا رانی‘ (1945ء)،’ ہم ایک ہی‘ (1946ء) اور’گرلز اسکول‘(1949ء) تھیں۔

کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ گرو دت نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز ایک ڈانس ڈائریکٹر کی حیثیت سے مشہور پربھات اسٹوڈیو میں فلم لاکھا رانی سے کیا۔ اُنہوں نے 1942ء سے 1944ء تک اُستاد اُدے شنکر کی المورا ڈانس اکیڈمی میں تربیت حاصل کی تھی۔

فلموں میں اپنے کیریئر میں اُنہوں نے بطور اداکار کُل 17 فلموں میں کام کیا اور اُن میں سے 8 فلمیں انہوں نے خود ڈائریکٹ کیں اور یہی فلمیں اُن کی سب سے بہترین فِلمیں بھی ثابت ہوئیں۔

ان کی مشہور فلموں میں 'صاحب، بیوی اور غلام' اور 'چودہویں کا چاند' شامل ہیں۔ جو خود ڈائریکٹ نہیں کیں۔ اگر گرو دت کی چار فلموں کو بے مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان میں دو مزاحیہ اور دو سنجیدہ فلمیں شامل ہیں۔

گرو دت کے کام کرنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ پہلے ایک کامیڈی بناتے اور اُس کے فوراً بعد ایک سنجیدہ فلم بنانا شروع کر دیتے۔ اگر محبوب خان، بمل رائے اور راج کپور کی فِلموں نے دیوداس کی صورت میں اس دور کے بھارتی نوجوان کی ایک الگ اور نئی تصویر پیش کی تو گُرو دت نے اُس مایوس سنجیدہ ہیرو کو ایک ذاتی اور سیاسی پہچان دی۔

ایک ایسے وقت میں جب بھارتی سنیما ایک نئے دور کی تلاش میں تھا ،گرو دت نے اپنی فلموں میں بہت سے مشکل مسائل اٹھا کر لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔

اِن سوالوں کے جواب شاید خود گرو دت کو آخر تک نہ مل سکے لیکن اِن سوالوں سے گرو دت نے بھارتی سِنیما کی ایک ایسی الگ تاریخ لکھی جس کا اثر آج بھی بھارتی سِنیما پر نظر آتا ہے۔

گُرو دت کو اُردو سے محبت تھی۔ اُن کی فِلموں میں ایسی اردو شاعری کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جس کا جنم بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ہوا اور جس کا اثر آج بھی فلم انڈسٹری پر صاف نظر آتا ہے۔ ساحر لدھیانوی کی اردو سے محبت کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یہ وہ اردو تھی جو خود گرو دت کے جذبات اور حالات سے واقف تھی۔

سنہ 1951 بمبئی کی فلمی صنعت کا ایک سنہری دور تھا۔ اُس برس دلیپ کمار اور نرگس کی دیدار اور ہلچل، مدھوبالا اور دلیپ کمار کی ترانہ، ہدایتکار ضیا سرحدی کی ہم لوگ اور راج کپور کی عالمی شہرت یافتہ فلم آوارہ بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اتنے سخت مقابلے کے باوجود گرُو دت کی فلم بازی نے اچھا خاصا بزنس کیا، اور پچیس برس کی عمر میں گرُو دت کو ایک مستند ہدایتکار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔سنہ 1952میں گرُو دت نے فلم جال ڈائرکٹ کی جو کہ جنوبی ہند کے ساحلی علاقے میں واقع ایک کرسچن بستی کی کہانی تھی۔

اگلے برس فلم ’بازی‘ بنائی جس میں بحری قذاقی کے موضوع کو آزمایا گیا اور ایک برس بعد گرودت کی معروف فلم آر پار سامنے آئی جو اپنی سادہ مگر پُر اثر کہانی، شیاما کی فطری اداکاری اور او پی نیر کی دلکش موسیقی کے باعث زبردست کامیاب ثابت ہوئی۔اس کے ایک برس بعد انہوں نے اپنے زمانے سے بہت آگے کی کہانی پر مبنی فلم مسٹر اینڈ مسز 55 پیش کی جسے آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی دیکھتے ہیں تو وہ بالکل نئی فلم معلوم پڑتی ہے۔’ آر پار‘ اور ’مسٹر اینڈ مسز ففٹی فائیو‘ کا شمار بھارت کی یادگار مزاحیہ فلموں میں کیا جاتا ہے جبکہ ’پیاسا‘ اور’ کاغذ کے پھول‘ نہ صرف بھارتی بلکہ عالمی سنیما کی دو نہایت ہی اہم فِلمیں مانی جاتی ہیں۔ اِن دو فِلموں میں سے ’پیاسا‘ ایک بہترین فلم تھی جو کافی مقبول ہوئی۔سنہ 1956 میں گرودت کی فلم سی آئی ڈی منظرِ عام پر آئی۔

بازی اور آر پار کی طرح یہ بھی جرم و سزا کی ایک کہانی تھی لیکن اس میں گرُو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا اور ہدایتکار کی ذاتی زندگی میں یہ واقع ایک انتہائی اہم موڑ ثابت ہوا۔سنہ 1953 میں گرودت نے اس زمانے کی معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کر لی تھی۔ اُن کے دو بیٹے بھی پیدا ہوچکے تھے اور زندگی بڑی خوشگوار گزر رہی تھی لیکن وحیدہ رحمان گرُو دت کی فلمی زندگی میں داخل ہوئی تو ان کی گھریلو زندگی میں ایک طوفان آگیا۔گیتا دت پر افسردگی اور جھنجھلاہٹ کے دورے پڑنے لگے۔ اس نے شوہر کی جاسوسی شروع کردی اور ایک روز کہیں سے اطلاع ملنے پر کار میں شوہر کا پیچھا شروع کر دیا کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ وحیدہ کے پاس جا رہے ہیں۔ جب شوہر کو پتہ چلا تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس روز سے ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار کھڑی ہوگئی۔گرُو دت کے دوستوں کی ہمدردیاں چونکہ ان کی بیوی کے ساتھ تھیں، اس لیے وہ ایک ایک کر کے گرودت سے دور ہونے لگے۔ گیتا دت نے بھی تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچوں کو لے کر وہاں چلی گئیں۔ وحیدہ نے جب دیکھا کہ گرودت کی تمام پریشانیوں کا الزام ان پر آرہا ہے تو وہ بھی کنارہ کش ہوگئی اور یوں گرودت بالکل تنہا رہ گئے۔

انہیں پریشانیوں کے دنوں میں ان کی فلم پیاسا ریلیز ہوئی جس میں ایک سچے فنکار کی مشکلات اور فن کے بارے میں دنیا والوں کی بے حسی کو پیش کیا گیا تھا۔فلمی مبصرین کے اندازوں اور پیش گوئیوں کے برعکس فلم پیاسا انتہائی کامیاب رہی۔ فلم میں ساحر لدھیانوی کی جس طرح کے گیت لکھے اس کا ایک ایک لفظ صورتِ حال پر سو فیصد درست بیٹھتا تھا۔ اس کامیابی سے حوصلہ پاکر گرُو دت نے فن کار کا حتمی المیہ پیش کرنے کے لیے ایک سوانحی فلم تیار کی جس میں ایک فلمی ہدایتکار کی زندگی پیش کی گئی تھی جو کہ بیوی اور محبوبہ کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ گیا ہے اور آخرکار شراب میں زندگی کو ہمیشہ کے لیے ڈبو کر ہر طرح کے مصائب سے آزاد ہوجاتا ہے۔

گرُو دت نے کاغذ کے پھول بڑے دل سے بنائی تھی اور اس کا مہورت دہلی میں نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کے ہاتھوں انجام پایا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ثابت ہوئی۔ اس ناکامی نے گرودت کو توڑ کے رکھ دیا۔ بطور ہدایتکار ان کی خود اعتمادی خاک میں مل گئی۔ حتٰی کہ جب فلم ’صاحب بی بی اور غلام‘ بن کر تیار ہوئی تو اس پر بطور ہدایتکار گرُو دت نے اپنا نام بھی نہیں دیا۔نو اکتوبر 1964 کی شام،گرُو دت کی بیشتر فلموں کے رائٹر اور ذاتی دوست ابرار علوی ان کے پاس تھے اور کھانے پینے کی محفل کے بعد رات کے ایک بجے تک اُن کی گپ شپ ہوتی رہی۔ باتوں باتوں میں اس پر بھی بحث ہوئی کہ بعض لوگ خود کشی کے لیے بڑی تعداد میں نیند کی گولیاں کھا لیتے ہیں لیکن پھر بھی موت دغا دے جاتی ہے اور انھیں اسپتال لے جاکر بچا لیا جاتا ہے۔ چنانچہ دونوں نے ہنسی مذاق میں اس بات پر اتفاق کیا کہ گولیاں پھانکنے کی بجائے انھیں باریک پیس کر پانی میں حل کر لینا چاہیئے تاکہ فوری اثر ہو۔ رات کے ایک بجے کے قریب گرُو دت نے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے اور ابرار علوی اپنے گھر چلے گئے۔

وہیں 10 اکتوبر 1964 کا دِن، گرودت کے چاہنے والوں کے لیے بڑا مایوس کن دن تھا۔ جب گیتا دت کے اصرار پر بیڈروم کا دروازہ توڑا گیا تو اندر بستر پر گرُو دت ابدی نیند سو رہے تھے۔

ابرار علوی نے دیکھا کہ میز کے نیچے ایک گلاس پڑا ہے جس میں پیلے رنگ کا گاڑھا سا کچھ محلول اب بھی پیندے سے لگا ہوا ہے، اور نیند کی گولیوں والی ڈبیہ خالی ہے۔خودکشی کی خبر جنگل کی آگ بن کر ہر طرف پھیل گئی۔ سب سے پہلے دیوآنند موقع پر پہنچے اور راج کپور کو خبر کی۔ وہاں سے یہ اطلاع پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری کو پہنچی۔ جانی واکر اور وحیدہ رحمان اس وقت مدراس میں شوٹنگ کر رہے تھے۔ خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر وہ بمبئی پہنچے۔ سہ پہر تک بمبئی کے سبھی فلمی ستارے اور دیگر اہم شخصیات گرُو دت کے فلیٹ پر جمع ہو چکی تھیں۔اگلے روز سب اخباروں کی سرخیوں میں گرُو دت موجود تھے۔ مشہور فلمی میگزین فلم فیئر نے گرُو دت کی یاد میں خصوصی شمارا نکالا جس میں کیفی اعظمی نے بھی گرُو دت کو خراجِ عقیدت پیش کیا جو اس طرح شروع ہوتا تھا۔رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی۔

یہ بھی پڑھیں: Sanjeev Kumar: اداکار سنجیو کمار کا 83 واں یومِ پیدائش آج

گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد ان کا مقدر بنی، 1970 کی دہائی میں ان کی فلمیں پھر سے مقبول ہونے لگیں اور 1980 میں ایک فرانسیسی محقق نے اُس پر اپنی ریسرچ شائع کی تو گرو دت کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔سنہ 1980 کے عشرے میں گرودت کی فلموں کے میلے پہلے فرانس میں اور پھر یورپ کے دیگر شہروں میں منعقد ہوئے۔ مشہور فِلم اسکالر لاورا ملوی نے سائٹ اینڈ ساونڈ میگزین میں گرو دت کی فلم 'پیاسا' کو دُنیا کی دس بہترین فلموں میں شمار کیا۔آج دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں بھارتی کمرشیل سنیما کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، گرُو دت کے نام لیوا موجود ہیں اور جو شاہکار وہ وقت سے پہلے تخلیق کر گئے تھے آج اُن کی تفہیم اور کامل تحسین کا ماحول بھی پیدا ہو چکا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.