ہم حیاتیاتی تنوع سے متعلق سال 2020ء کا عالمی دن (انٹرنیشنل بائیولوجیکل ڈائورسٹی ڈے) منا رہے ہیں۔ اس موقع پر ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم فطرت (کارخانہِ قدرت) سے جدا نہیں ہیں، بلکہ اس کا ایک حصہ ہیں۔ قدیم اصحابِ کشف نے اس کارخانہ قدرت کو ایک عالمی کنبہ قرار دیا ہے۔ اس عالمی کنبے کو سنسکرت زبان میں ’واسودیوا کوتوم باکھم‘ کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے تحت ایک زمینی کیڑے سے لیکر دیو قامت ہاتھی تک کی جانداروں میں باہمی تعاون کا تصور دیا گیا ہے۔ بعض اوقات ہم مصیبتوں (قحط، سیلابوں وغیرہ) سے ہی اجتماعی شعور اور تمام جانداروں کے باہمی تعاون سے متعلق سبق سیکھتے ہیں۔
ہمارے آبا و اجداد نے صدیوں کے تجربات کی روشنی میں ہمارے لئے کئی سبق چھوڑے ہیں۔ ان کی جانفشانی سے حاصل کئے گئے تجربات کی وجہ سے ہم نے متنوع سماجی زندگی کے فوائد ، ناسازگار موسموں میں زندگی جینے اور متناسب خوراک پیدا کرنے کا ہنر پایا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی آج ہمیں طرح طرح کے پودے اور قسم قسم کی خوراکیں میسر ہیں۔ صرف بھارت میں چاول کے دو لاکھ اقسام پائے جاتے ہیں۔ ہمیں جو اور راگی جیسے غذائی اجناس میسر ہیں، جن کی بدولت ہمیں ایک صحت مند زندگی جینے میں مدد ملتی ہے۔ ہم نوراتری کے دوران نو دیوتائوں کی پوچا کرتے ہیں اور انہیں مختلف انواع کے غذائی اجناس چڑھاوئے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہماری پیدائش سے لیکر موت تک ہم مختلف رسومات کے ذریعے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا پیٖغام دیتے ہیں۔
آج بھی بھارت کے بعض علاقوں میں کئی فرقوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ دُلہنیں اپنے ہمراہ اپنے میکے سے بیچ اور ہلدی وغیرہ جیسے مصالحہ جات لیکر سسرال جاتی ہیں۔ ہم جانوروں کو بھی اپنی زندگیوں سے جدا نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اُنہیں مقدس سمجھتے ہیں اور انہیں دیوی دیوتاؤں سے منسوب قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مغرب میں جس چوہے کے ساتھ نفرت کی جاتی ہے، وہ ہمارے یہاں دیوتا گنیش کے ساتھ منسوب سمجھا جاتا ہے۔ برصغیر کی تہذیب میں صرف انسانوں کو ہی کائنات کا سب سے اہم جاندار نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہر جاندار کو مقدس مانا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر جاندار اس دُنیا کو آگے بڑھانے میں اپنا تعاون فراہم کرتا ہے۔
لیکن افسوس کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کی نظر میں یہ سب باتیں مشرکانہ رسومات اور توہم پرستی تھیں۔ وہ ہماری رسومات کے پس پردہ دانش کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اسلئے انہوں نے توہین آمیز طریقے سے ہمیں بدلنے کی کوششیں کیں۔ نوآبادیاتی منصوبوں کے نتیجے میں انہوں نے یہاں اپنے ایجنٹ پیدا کئے اور پھر اُن کی مدد سے ہماری قدیم طرز زندگی کو بدلنے کی کوشش کی۔ لوٹ کھسوٹ مچانے کے مقصد سے انہوں نے ہمیںفطرت کے ساتھ جنگ لڑنے کی علت سے دوچار کردیا۔ سامراجیت کے اُس دور میں ہی زمین کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ شروع ہوگئی تھی اور اس کے ساتھ ہی عروج سے زوال کی طرف ہمارا سفر بھی شروع ہوگیا تھا۔
لیکن کیا اب فطرت کو نقصان پہنچانے کا یہ عمل بند ہوگیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سلسلہ مزید بڑھ گیا ہے۔ اب ہمارے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی تو نہیں ہے لیکن ناجائز منافع کی لالچ میں زرعی پیداوار کو ملاوٹ ذدہ بنانے کی دیو ہیکل کمپنیاں ہیں۔ بھارت جہاں کبھی ہر شئے وافر مقدار میں میسر ہوا کرتی تھی اور جہاں انسانی زندگیوں میں ایک تنوع پایا جاتا تھا، اب اپنی یہ عظمت کھو رہا ہے۔ حیاتیاتی نظام کے ساتھ ہمارا تعلق، ہماری فصلوں کے معیاری بیچ، طبی فوائد کے حامل پیڑ پودے اور ہمارے جانوروں کی اعلیٰ نسلوں کا تنوع اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ انڈین پلانٹ جنیٹک ریسورسز (پی جی آر) ، جو اپنے معیار کے اعتبار سے دُنیا میں سب سے اعلیٰ تھے، ان کو بیرونِ ملک لوٹ کر لے جایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ حکام کی لاپرواہی کے نتیجے میں اور غیر قانونی طریقوں سے کیا جارہا ہے۔
دی انٹرنیشنل ٹریٹی آن پلانٹ جینیٹک ریسورسز فار فوڈ اینڈ ایگریکلچر( آئی ٹی پی جی آر ایف اے) اور دی انٹرنیشنل یونین فار دی پروٹیکشن آف نیو ویرایٹیز آف پلانٹ( یو پی او وی) جیسے معاہدوں کی موجودگی کے باوجود میں بھارت کے ساتھ بدمعاشی ہورہی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے استحصال کے نتیجے میں انڈین پلانٹ جنیٹک وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ جبکہ ان لوگوں جنہوں نے ان پودوں اور بیچوں کی پرورش کی ہے ، ان کو کوئی فائدہ نہیں مل پارہا ہے۔ ہمارے بائیو ڈاورسٹی ایکٹ اور نیشنل بائیوڈاورسٹی اتھارٹی کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔
بھارت میں پلانٹ جینیٹک وسائل کا جائزہ لینے والے ادارے مکمل طور پر انٹرنیشنل سیڈ کمپنیوں ، بشمول چین کی کمپنیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب بھارتی کمپنیاں چین اور تھائی لینڈ میں کسی کمپنی کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمیں زیادہ بہتر نیشنلسٹک ایف ڈی آئی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بالخصوص اپنے ملک کے پلانٹ جنیٹک وسائل کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ کیونکہ یہ ہمارا وہ سرمایہ ہے، جو ہمیں موسمیاتی تغیر میں حالات سے جھوجھنے میں مدد دے گا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہونا چاہے کہ ہم اس ضمن میں تنوع کو تحفظ فراہم کریں اور اپنے کسانوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بیج کی نئی اقسام کو پیدا کریں۔
ہمارے مسائل کا حل اسی کارخانہ قدرت میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ان قدرتی وسائل کو استعمال کرنا ہوگا۔ لیکن اس ضمن میں ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کے بجائے مقامی لوگوں اور اپنے کسانوں کو ہی کام پر لگانا ہوگا۔ ایم ایس سوامی ناتھن، جو ملک میں گرین ریولیوشن کے موجد تھے، انہوں نے ہمیں بارہا سمجھایا ہے کہ ہماری تمام ضرورتیں ہمارے ملک کے ہی متنوع حیاتیاطی نظام سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں اپنے پودوں اور فصلوں کی جنیات تبدیل کرنے اور دیگر مصنوعی طریقے اپنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے ہی فطری ماحول میں ضرورت کی ساری چیزیں وافر مقدار میں میسر ہوسکتی ہیں۔
ہم سب کو اپنے ملک کی بائیو ڈاورسٹی سے حاصل ہونے والی اشیاء استعمال کرنی چاہیں۔ یہ نہ صرف کم قیمت پر دستیاب ہوسکتی ہیں بلکہ یہ اشیاء ہماری صحت کے لئے بھی مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہم اپنی خوراک میں باجرا یا چاول اور گہیوں کے مقامی اقسام شامل کرسکتے ہیں۔ یہ خوراک ہمارے لئے صحت بخش ثابت ہوگی۔ ہمیں پھر سے اپنی مقامی سبزیاں اُگانی ہوں گی۔ ملاوٹ سے پاک خوراک کے حصول کےلئے بھی ہمیں اپنے ہی ملک کی پیداوار پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس طرح سے ہم مقامی لوگوں یعنی اس پیدواری شعبے سے جڑے لوگوں کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔
کپڑے کے حوالے سے بھی ہمیں مقامی پیداوار پر انحصار کرنا ہوگا۔ ہمیں یہاں پیدا ہونے والے کاٹن کا استعمال کرنا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ملک میں کم قیمت کے عوض تیار ہونے والے کپڑوں کا استعمال کریں۔ اس طرح سے ہم اپنے دست کاروں کی بھی مدد کرسکتے ہیں۔ ہمارے مسائل کا حل جانکاری عام کرنے میں مضمر ہے۔ ہمیں اپنے وسیع کنبے (واسو دیوا کوتم بھاکم) کے نظام کو گلے لگانا ہوگا۔ ہمیں ہماری زندگیوں میں بائیوڈاورسٹی اور تقدس واپس لانا ہوگا۔ ہمیں زیادہ منافع کی لالچ میں فطرت کے خلاف جنگ لڑنا بند کرنا ہوگا اور قدرت کی طرف سے وافر مقدار میں میسر اشیاء کو ہی استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے رویہ میں تبدیلی لانی ہے۔ ہمیں اُس زبان کو بھی ترک کرنا چاہیے جس میں فطرت کو ایک مردہ شئے قرار دیا جاتا ہے۔ ہمیں پھر سے فطرت کو ایک دیوتا ماننا ہوگا کیونکہ یہ اصل میں دیوتا ہی ہے۔
اندرا شیکھر سنگھ
(ڈائریکٹر، پالیسی اینڈ آوٹ ریچ، نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا)