نئی دہلی: اداکار سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر بنے روی کشن Bhartiya Janta Party leader Ravi Kishan جو 'آبادی کنٹرول' مہم کی سربراہی کر رہے تھے، اپوزیشن جماعتوں کے ہنگامے کے درمیان لوک سبھا میں آبادی کنٹرول سے متعلق پرائیویٹ ممبر بل کو پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد روی کشن سوشل میڈیا صارفین اور ٹرولرز کی جانب سے بل لانے پر تنقید کی زد میں آگئے حالانکہ وہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت چار بچوں کے باپ ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان سے اخلاقی سوال پوچھا جارہا ہے۔ سیاسی ماہر یوگیش مشرا کہتے ہیں کہ سیاست میں اخلاقیات اور اصولوں کی کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ سیاست داں کھلے عام بدعنوانی اور پارٹیوں سے انحراف یا دل بدلی میں ملوث ہوتے ہیں۔
پاپولیشن کنٹرول بل سے متعلق بل 2019 میں، بی جے پی رکن پارلیمان راکیش سنہا کی طرف سے بطور ایک پرائیویٹ ممبر بل لایا گیا تھا، اس مجوزہ بل کا مقصد یہ تھا کہ جوڑوں کو دو سے زیادہ بچوں کو جنم دینے سے روکا جائے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دو سے زیادہ بچوں والے جوڑوں کو سرکاری ملازمت اور حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی مختلف سہولیات اور سامان پر دی جانے والی رعایات کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ Population Control Policy
تاہم، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ راکیش سنہا نے ہفتہ کو ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ جو بل راجیہ سبھا میں لائے تھے اسے واپس لینا پڑا کیونکہ حکومت نے پارلیمنٹ میں اس سے صاف انکار کر دیا تھا۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جس پارلیمنٹ کے ذریعے یہ قانون بنایا جا رہا ہے، کیا اسی پارلیمنٹ کے ارکان نے اپنے خاندان کو دو بچوں تک محدود رکھا ہے یا نہیں۔ لوک سبھا کی ویب سائٹ پر ممبران پارلیمنٹ کے کنبوں کے بارے میں ای ٹی وی بھارت نے جو معلومات حاصل کی ہیں وہ ایک مختلف تصویر دکھاتی ہے۔
لوک سبھا کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق کُل 543 لوک سبھا ممبران ہیں جن میں سے بی جے پی کے 303، کانگریس کے 53، ڈی ایم کے کے 24، ترنمول کانگریس کے 23، وائی ایس آر کانگریس کے 22، شیوسینا کے 19، جے ڈی (یو) کے 16، بی جے ڈی کے 12، بی ایس پی کے 10 اور دیگر۔ ان 543 ارکان میں سے 171 ارکان ایسے ہیں جن کے 2 سے زیادہ بچے ہیں جن میں سے بی جے پی کے 107، کانگریس (10)، جے ڈی (یو) (9)، ڈی ایم کے (6) اور دیگر 25 سیاسی جماعتوں میں سے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے 39 ممبران پارلیمنٹ ہیں جن کے چار یا اس سے زیادہ بچے ہیں جب کہ باقی سیاسی پارٹیوں میں ایسے تقریباً 25 ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ اے آئی یو ڈی ایف کے رکن پارلیمان مولانا بدرالدین، اپنا دل (ایس) (2) سے پکوری لال اور جے ڈی (یو) کے دلشور کمیت سمیت 3 ایم پی ہیں جن کے 7 بچے ہیں جبکہ ایک ایم پی کے 6 بچے ہیں۔ ایسے میں جن ارکان پارلیمنٹ کے 3 یا 4 سے زیادہ بچے ہیں کیا وہ بل کو منظوری دے سکیں گے۔ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے؟
اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینئر صحافی ونود اگنی ہوتری نے کہا کہ حکومت دراصل ان بلوں کے ذریعے پارلیمنٹ اور ملک کے مزاج کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ جیسے ہی اس مسئلہ پر بحث شروع ہوگی، فوراً پولرائزیشن ہوجائے گی اور بی جے پی کو کسی نہ کسی طرح فائدہ پہنچے گا۔
اخلاقی جواز کے سوال پر، سینئر صحافی اور سیاسی ماہر یوگیش مشرا نے رائے دی کہ لفظ 'جواز' کی سیاست کے دائرے میں کوئی حقیقی جگہ نہیں ہے۔ "ہم کھلے عام انحراف دیکھ رہے ہیں۔ بدعنوانی کے مقدمات میں پکڑے جانے کے بعد بھی وزراء اپنے عہدوں پر فائز ہیں، اس لیے سیاست میں اخلاقیات اور اصولوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔"
تاہم، 'پاپولیشن کنٹرول پالیسی' کے دائرہ کار میں، کوئی بھی اس بات کا خود جائزہ لے سکتا ہے کہ یہ بل کون لا رہا ہے کیونکہ یہ ایک کلیدی مسئلہ ہے۔ آیا یہ مسئلہ سیاسی بحث کا آغاز کرتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ صرف وقت کرے گا لیکن کوئی اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی کی پارلیمانی اکثریت ہے۔" یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دو بچہ پالیسی تقریباً تین درجن بار پارلیمنٹ میں پیش کی جا چکی ہے، لیکن کسی بھی ایوان سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
یہ قابل غور ہے کہ وزیر مملکت برائے صحت بھارتی پروین پوار نے منگل کو راجیہ سبھا کو بتایا کہ مرکزی حکومت آبادی کنٹرول کے لیے کسی قانون سازی کے اقدام پر غور نہیں کر رہی ہے۔ پوار نے کہا کہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے مطابق 21۔2019 میں ٹوٹل فرٹیلٹی ریٹ یا ٹی ایف آر کم ہوکر 0ء2ہوکر رہ گیا ہے جو کہ متبادل سطح سے کم ہے۔
اس صورتحال کے باوجود تاہم یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ، مرکزی وزیر گری راج سنگھ، اور بھگوا پارٹی اور ہندوتوا گروپوں کے بہت سے دوسرے لیڈر ہیں جو ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے قانون متعارف کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔