نیپال گزشتہ ایک دہائی سے، یعنی جب سے یہ وفاقی جمہوری جمہوریہ بن گیا ہے، سیاسی عدم استحکام کے ایک دائمی بحران میں مبتلا ہوچکا ہے۔
اس عدم استحکام کی جڑیں منقسم سیاسی منطر نامے، نئے نویلے آئینی اداروں اور اقتدار کے بھوکے سیاسی لیڈروں سے جاملتی ہیں۔
موجودہ بحران وزیر اعظم کے پی شرما اولی کا پیدا کردہ ہے، جنہوں نے دسمبر میں پارلیمنٹ کو تحلیل کرتے ہوئے اپریل ،مئی 2021ء میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام نیپال کے آئین (جسے ستمبر 2015ء میں اختیار کیا گیا) کی خلاف ورزی ہے۔ اس آئین کی رو سے پارلیمنٹ کو اس طریقے سے تحلیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آئین کے مطابق اگر وزیر اعظم اکثریت کے تعاون سے محروم ہوجانے یا کسی اور وجہ سے بے اختیار ہوجاتے ہیں تو اُس صورت میں پارلیمنٹ کو نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کا اختیار ہوگا۔
پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اقدام کا سبب بتاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پارٹی میں اُن کے سینئر ساتھیوں کی حرکتوں کی وجہ سے وہ یہ اقدام اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔ اس طرح سے اُنہوں نے حکمران جماعت کے اندر موجود تنازعے کا عندیہ بھی دیا۔
اُنہیں چاہیے تھا کہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں اپنی پارٹی کے اندر حمائت حاصل کرتے یا پھر کسی اور لیڈر، جو پارٹی کو قابل قبول ہوتا، کے لئے جگہ خالی کرتے۔
پارٹی میں موجود اولی کے مخالفین، جن میں پشپا کمال دھہال ’پراچندا‘ اور مادھو کمار شامل ہیں، نے الزام عائد کیا ہے کہ اولی نے اقتدار میں اُنہیں شریک کرنے کے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا۔ بلکہ سارا اختیار خود تک ہی محدود رکھا۔ اُن کا الزام ہے کہ وزیر اعظم نے فیصلہ ساز اداروں پر بھی اپنی گرفت قائم کرلی اور انتظامیہ میں کرپشن کو فروغ دیا اور اس طرح سے اُنہوں نے حکومت چلانے کی اپنی نااہلیت کا مظاہرہ کیا۔
چونکہ اولی کا یہ اقدام اُن کی اقتدار کی بھوک کی نشاندہی کرتا ہے، اس لئے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ نیپال میں مجوزہ انتخابات ملتوی ہوجائیں گے۔ ایمرجنسی نافذ ہوگی اور آئین کو تباہ کیا جائے گا اور اس طرح سے ملک عدم استحکام کے ایک طویل دور میں داخل ہوجائے گا۔
اولی کے اقدام نے نیپال کی سیاست کو مزید تقسیم در تقسیم کا شکار بنادیا ہے اور نئی سیاسی قوتیں ابھرنے لگی ہیں۔ اولی کو اپنی پارٹی کے اندر اقلیت کی حمایت حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہ نکالے گئے ہیں اور پارٹی بکھرنے لگی ہے۔
پارٹی کے اندر یہ بکھراو صوبائی اور ضلعی سطح پر بھی دیکھنے کو ملا رہا ہے، اس لئے الیکشن کمیشن نے تاحال کسی ایک دھڑے کو بطور ’حقیقی‘ پارٹی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
عدم تشدد کے پجاری مہاتما گاندھی کی 73ویں برسی پر خاص رپورٹ
نیپال میں حزب اختلاف کی کلیدی جماعت بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور اس وجہ سے وہ ملک میں پیدا شدہ سیاسی بحران کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔
جاگیردار قوتیں متحرک ہورہی ہیں۔ یہ قوتیں ختم شدہ بادشاہتی نظام اور ہندو توا آئیڈیالوجی کی حامی ہیں۔ یہ قوتیں موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ایک ہندو ریاست قائم کرنے کی مانگ کررہی ہیں۔ منتشر مدیشی گروپس بھی متحرک ہورہے ہیں اور بدلتی ہوئی سیاسی ہوا میں اپنی لئے سمت کا تعین کررہی ہیں۔
ملک میں طاقت کے مراکز پر اپنا آمرانہ کنٹرول بنائے رکھنے میں اولی کمزور پڑھ رہے ہیں، اس لئے لگتا ہے کہ وہ نیپال کانگریس یا ہندوتوا کے حامی گروپس کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے کمونسٹ پارٹی کے اندر اپنے سیاسی مخالفین سے نبرد آزما ہوجائیں گے۔
کوئی نہیں جانتا کہ کون کب اور کس کے ساتھ جاملے گا۔ وہ یہ کوشش بھی کریں گے کہ اُن کے مخالف پراچندہ (نیپال) بھی تقسیم ہوجائے، جو پہلے ہی کمزور ہے۔
پراچند کی قیادت میں ماو نواز اور نیپال اور کھانل کی قیادت والی یونائیٹڈ مارکسٹ لیننسٹ کی دیرینہ دشمنی ہے، جو زمینی سطح پر بھی موجود ہے۔
یہ پراچندا کی ہوس اقتدار اور چین کے منصوبے کا نتیجہ تھا، کہ سال 2017،2018ء میں نیپال میں ایسے حالات پیدا ہوگئے، جن میں ماو نواز اور یونائیٹڈ مارکسٹ لیننسٹ کمونسٹ پارٹی آف نیپال کی شکل میں متحد ہوگئے۔
اس طرح کے الجھن بھرے سیاسی ماحول میں، آنے والے دنوں اور مہینوں میں سیاسی گروہوں کی جانب سے سڑکوں پر طاقت کی نمائش، موقعہ پرستی پر مبنی دوستیاں اور سیاسی اچھل کود دیکھنے کو ملے گی۔ چونکہ بھارت اور چین دونوں کے نیپال سے مفادات جڑے ہیں، اس لئے دونوں ملک یہاں کی صورتحال پر نطر رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت اور چین دونوں نیپال میں اپنی من پسند حکومت کے قیام کی دوڈ میں لگے ہوئے ہیں۔ دونوں چاہتے ہیں کہ یہاں کی نئی حکومت کو اپنے اپنے مفاد میں دوستانہ تعلقات کی حامل ہو اور اُن کے اپنے اپنے مفادات کی آبیاری ہو۔
بھارت اس بات پر خوش ہے کہ چن نے جس کمونسٹ پارٹی کو یکجا کیا تھا، اس کی حکومت بکھر گئی ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا نتیجہ کیا ہوگا۔ بھارت کی حکومت میں ایسے حلقے ہونگے جو نیپال میں ہندو توا اور بادشاہتی نظام کی حامی قوتوں کو آگے بڑھانا چاہتے ہوں۔ اُن کا خیال ہے، کہ اس طرح سے نیپال میں لادین کمونسٹوں اور گمراہ کن جمہوریت پسندوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ بات دھیان میں رہے کہ بادشاہتی نظام کے دوران ہندو توا آئیڈیالوجی کے حامیوں نے نہ ہی نیپالیوں کو استحکام اور ترقی کا ماحول فراہم کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے چین یا پاکستان کے سٹریٹجیک اثاثوں کو پھیلنے سے روکنے کی کوئی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیے
'اسرائیلی سفارت خانہ اور سفارت کاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا'
بھارت کو نیپال میں عدم استحکام کی اس صورتحال کے حوالے سے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھارت کی پینترے بازی کی وجہ سے یہاں بھارت مخالف پر مبنی قوم پرستی کو فروغ ملا اور اس کا خسارہ بھارت کو اٹھانا پڑا۔
احتیاط کا تقاضا ہے کہ نیپال کی اندرونی سیاست سے دوری اختیار کی جائے۔ اس صورتحال پر نظر رکھی جائے اور جب اس ملک میں استحکام پیدا ہوگا، تب ہی تعلقات کا تعئین کیا جائے۔
بھارت کو گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چین نے نیپال میں جو کچھ کیا ہے، اس کے نتیجے میں یہاں انتشار پیدا ہوگیا ہے، اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔