سری لنکا میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد مہندا راجا پکشے نے اس سال فروری میں بھارت کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ یہاں اُن سے جب ایک انگریزی اخبار نے یہ سوال پوچھا کہ کیا سری لنکا کے آئین کی 19 ویں ترمیم پر پیدا شدہ تنازعے کی وجہ سے اُن کے اور اُن کے چھوٹے بھائی گوٹا بھایا راجا پکشے، جو سری لنکا کے صدر ہیں، کے درمیان کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں تو انہوں نے جواباً کہا، ''نہیں، نہیں، نہیں''۔ جس طرح سے سری لنکا کا موجودہ آئینی ڈھانچہ ہے، اس میں 19 ویں ترمیم کے سوال پر پیدا شدہ مسائل کو صرف ہم دو یعنی میں اور میرا بھائی ہی اچھی طرح نمٹ سکتے تھے۔ برعکس صورت میں ایک صدر اور ایک وزیر اعظم اس مسئلے پر کبھی متفق نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن ہم نے اس مسئلے کو نمٹا دیا۔‘‘ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مہندا راجا پکشے کے چھوٹے بھائی گوٹا بھایا راجا پکشے کو ایک بہادر انسان مانا جاتا ہے۔ انہوں نے سال 2009 میں ایل ٹی ٹی ای کو شکست فاش دی۔
مہندا راجا پکشے، جنہوں نے 5 اگست کو کورونا وبا کے دوران منعقد کئے گئے انتخابات میں سری لنکا کی پارلیمنٹ میں 145 نشستیں حاصل کرکے شاندار فتح حاصل کی ہے، ان کی آنے والی حکومت کی توجہ کا اہم مرکز آئین کی 19 ویں ترمیم ہوگی۔ ان انتخابات، جنہیں پہلے ملتوی کردیا گیا تھا، میں 71 فیصد رائے دہندگان نے شرکت کی جبکہ سال 2015 کے انتخابات میں 77 فی صد ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ ماہندا راجا پکشے نے اپنی پارٹی ’’سری لنکا پوڈوجنا پارٹی (ایس ایل پی پی)‘‘ کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے اُمیدوار کی حیثیت سے یہ الیکشن لڑا۔ اُن کا حلقہ انتخاب ضلع کرونیگالا کے شمال مشرقی دالحکومت رہا۔ جبکہ سری لنکا کے سابق صدر ان انتخابات میں پولون نارووا کے شمال مرکزی خطے سے بطور اُمیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ جبکہ سابق وزیر اعطم رانیل وکریمی سنگھی اور سجیت پری ماداسا نے کولمبو ضلع سے بطور اُمیدوار کھڑے ہوگئے تھے۔ سجیت کی پارٹی ’’سماگی جنا بالاویگیا ( ایس جے بی)‘‘ کو 54 سیٹیں ملیں اور اس طرح سے یہ پارٹی ان انتخابات میں ایک کلیدی حزب اختلاف کے بطور سامنے آگئی۔
یہ انتخابی نتائج سری لنکا کے صدر کے لئے ہمت افزا ہیں۔ انہیں آئین میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت یعنی 225 ممبران کی حمائت چاہیے۔ گوٹابھایا راجا پکشے کو سال 2015ء میں کی گئی 19 ویں آئینی ترمیم کو ٹھیک کرنے یا کالعدم کرنے کےلئے پارلیمنٹ میں 150 نشستوں کی حمایت چاہیے۔ سال 2015ء میں اس ترمیم کے بعد ماہندا نے دس سال کا اقتدار کھودیا تھا اور اُن کی جگہ سری سینا ملک کے صدر بن گئے تھے۔ اس آئینی ترمیم کے تیجے میں سری لنکا کے صدر کے اختیارات میں کمی کی گئی تھی اور وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو اضافی اختیارات دیئے گئے تھے۔ اس ترمیم کا مقصد پارلیمانی طرز حکومت کو مزید موثر بنانا تھا۔
مسحی تہوار ایسٹر ( ایسٹر سنڈے) پر ہوئے دہشت گردانہ حملے، جس میں 290 افراد مارے گئے تھے، کے تناظر میں سری سینا اور وکریم سنگھئی کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تھے اور ان کے نتیجے میں نومبر 2019ء کے صدارتی انتخابات میں گوٹا بھایا راجا پکشے کی جیت کےلئے راہ ہموار ہوگئی۔ تازہ انتخابات میں یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (یو این پی) کو محض تین فیصد ووٹ ملے اور اس طرح سے اسے بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب یہ خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ ایک موثر اپوزیشن کی عدم موجودگی میںراجا پکشے پہلے ہی طرح پھر سے آمرانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔
اب جہاں تک اس نئے ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے سری لنکا کے ساتھ بھارت کے رشتوں کا تعلق ہے، ماضی میں نئی دہلی نے اُس وقت پکشوں سے قربت اختیار کرلی تھی، جب ماہندا نے چین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی تھی۔ گزشتہ سال نومبر میں جب گوٹا بھایا بطور صدر منتخب ہوگئے تو بھارت نے تعلقات کو مزید سنوارنا شروع کردیا۔ اب جبکہ ماہندا کو پارلیمانی انتخابات میں شاندار فتح ملی ہے، بھارت کو سری لنکا میں چین کا اثرو رسوخ کم کرنے کےلئے بہت محنت کرنی پڑے گی کیونکہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے، جب لائن آف ایکچیول کنٹرول پر چین کی فوج ساتھ بھارتی فوجیوں کا آمنا سامنا ہورہا ہے اور دوسری جانب نیپال میں بھارت مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے دو طرفہ تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرنے کے لئے ماہندا کے ساتھ سب سے پہلے رابطہ کیا اور اُنہیں مبارکباد دی۔ وہ مبارکبار دینے والے پہلے عالمی لیڈر ہیں۔ اُنہوں نے اس وقت مبارکباد دی جب ابھی سرکاری طور پر نتائج کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے جوان میں راجا پکشے نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’ مبارکبادی کی فون کال کرنے کے لئے وزیر اعظم مودی کا شکریہ۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ’’ سری لنکا کے عوام کے مضبوط سپورٹ کے ساتھ میں دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی تعاون کا متمنی ہوں۔ سری لنکا اور بھارت دوست اور ایک دوسرے کے تعلق دار ہیں۔‘‘
اس بیچ تامل نیشنل الائنس میں تقسیم اور نارتھ ایسٹ کے انتخابات میں شکست کی وجہ سے سیاسی مصالحت اور 13 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی تفویض کے اب زیادہ امکانات نہیں ہیں۔ تامل نیشنل الائنس نے اپنی سیاسی اہمیت کھودی ہے۔ اس کا ووٹ شیئر کم ہوگیا ہے حالانکہ یہ ابھی بھی ایک بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ تامل ووٹر پہلے ہی اپنی خواہشات کے حوالے سے متحرک ہوگئے تھے کیونکہ اُنہیں اندازہ لگا تھا کہ 2019ء کے انتخابات میں راجا پکشے اقتدار کے گلیاروں میں پہنچ گئے ہیں اور اس طرح سے اب 13 ویں ترمیم ہوگی۔ صدر گوٹا بھایا نے پہلے ہی کہا تھا کہ 13 اے کے بعض حصے نافذ نہیں ہوسکے ہیں اس لئے سٹیک ہولڈرز کو متبادل کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ ماہندا نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہ واضح کیا تھا کہ وہ یہ انتخابات قدامت پسندوں کی حمائت میں لڑرہے ہیں۔ اس لحاظ سے دلی کو تاملوں کے نسلی بحران جیسے مسائل حل کرنے میں زیادہ کامیابی کی اُمید نہیں ہے۔ سری لنکا میں تامل نسلی بحران کے مسئلہ تامل ناڈو کی مقامی سیاست کا محور ہے۔ اب جہاں تک بھارت کے اور سری لنکا کے مستقبل کے رشتوں کا تعلق ہے، اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کولمبو کی اہم بندرگاہ پر تعمیر ہورہے ایسٹرن کنٹینر ٹرمنل (ای سی ٹی) پروجیکٹ میں بھارت کے کردار پر اپنی غیر یقینیت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ در اصل کافی صلاح و مشورے اور بحث و تمحیض کے بعد سری لنکا نے مئی 2019ء میں اس ٹرمنل کی مشترکہ تعمیر، جس پر سات سو امریکی ڈالر کی لاگت کا تخمینہ ہے، سے متعلق بھارت اور جاپان کے ساتھ ایک میمورنڈم پر دستخط کئے ہیں۔ اس معاہدے کو لیکر وکریم سنگھئی اور سری سینا کے درمیان ٹھن گئی۔ وکریم سنگھئی نے اس معاملے پر نیشنل ازلزم کا کارڈ کھیلتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے قومی اثاثے سے متعلق کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری ٹھیک نہیں ہے۔ اس معاملے پر مخلوط سرکار کی اکائیوں میں اختلافات رائے ابھر گئے۔ جولائی کے ابتدا میں ماہندا راجا پکشے نے تامل ایڈیٹرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود اس پروجیکٹ کے مستقبل پر سوالیہ لگا ہوا ہے۔ اس موقعے پر انہوں نے کہا تھا، ’’یہ معاہدہ سابق صدر میتھری پالا سری سینا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ہوا تھا لیکن اس بارے میں ہم نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘‘
حیرت انگیز طور پر ہمبان ٹوٹا بندر گاہ کو 99 سال کے پٹے پر چین کو سونپنے کے معاملے پر سری لنکا میں قوم پرستی کے اس جوش و جذبے کا کوئی اظہار نہیں کیا جارہا ہے، جس کا ٹرمنل کی تعمیر میں بھارت کی شرکت پر کیا جارہا ہے۔ کولمبو سٹی پروجیکٹ میں چین کی شمولیت برقرار ہے۔
ماہندا کے بیٹے نامل، جنہوں نے ہامبانٹوٹا میں اپنے والد کے ووٹرز کی مدد سے جیتا ہے، نے کہا ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں بڑے پیمانے پر انفراسٹکچر تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ہامبانٹوٹا میں واقع سری لنکا کے شمالی بندرگاہ میں چین کی جانب سے کی جارہی تعمیر و ترقی پر بات کرتے ہوئے کہا، ’’ ہامبانٹوٹا ہمارے ملک کا دوسرا کمرشل شہر بنے گا۔ یہاں شاہرائیں، سٹریٹجیک بندرگاہ، انٹرنیشنل ائر پورٹ اور دیگر چیزیں تعمیر ہوں گی۔ ہم ایسا کرکے دکھائیں گے۔‘‘
مودی سرکار کو فی الوقت چین کی جارحیت کا سامنا ہے۔ ایک جانب شمال اور مشرق میں چین جارحانہ اقدامات کررہا ہے اور دوسری جانب مغرب میں دہشت گردوں کی چین کی اعانت اور خونریزی کی وجہ سے مودی سرکار کو پریشانی لاحق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیپال میں بھارت مخالف جذبات ابھر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں مودی سرکار کا ’’ہمسائیگی کو ترجیح‘‘ کا ایجنڈا عملی طور پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ یہ محض ایک نعرہ بن کر رہے گا۔
امریکا، جاپان اور آسٹریلیا ایشیا پیسفک میں چین کے توسیع پسندانہ عزائم کو قابو کرنے کےلئے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات مضبوط بنا سکتے ہیں لیکن بھارت کے لئے قریبی ممالک بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ پڑوس میں واقع جزیرہ نما ممالک بھارت کے سمندری تحفظ اور سمندر سے جڑی معیشت کےلئے انتہائی اہم ہیں۔ بھارت سری لنکا میں چین کا اثرو رسوخ ختم نہیں کرسکتا ہے۔ سری لنکا چین کے قرض کے بوجھ تلے دب گیا ہے اور دوسری جانب کووِڈ 19 کی وجہ سے اس کی سیاحتی آمدن بھی متاثر ہوگئی ہے۔ تخمینے کے مطابق کولمبو پانچ بلین امریکی ڈالر کا مقرض ہے۔ ماہندا نے اپنے فروری کے بھارت دورے کے دوران بھارت سے 960 ملین ڈالر قرضے کی تین سالہ مہلت مانگی تھی اور بھارت نے ابھی تک اس گزارش کا جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم ریزرو بینک آف انڈیا نے سری لنکا کو نومبر 2022ء تک چار سو ملین ڈالر کرنسی کے تنادلے کی سہولت فراہم کرنے کی حامی بھری ہے۔
بھارت چاہے گا کہ کووِڈ 19 کے موضوع پر دونوں یعنی بھارت اور سری لنکا کے وزرا اعظم کے درمیان ورجیول سمٹ کانفرنس ہو ۔ بھارت ماہندا کے نئی دلی کے دورے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی کرے گا لیکن جہاں تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بات ہے، اس ضمن میں علامتی اقدامات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ بھارت بعض قدامت پسند لوگوں کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے ساتھ دو طرفہ تعلقات، بالخصوص راجا پکشوں کے دور اقتدار میں، بھارت نے بہت کچھ دیا ہے لیکن جواب میں بہت کم حاصل کیا ہے۔ بہرحال ماضی سے سبق حاصل کرنے اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں حال اور مستقبل کے تعلقات بھی طے کرنے ہونگے۔ راجا پکشوں نے چین کے قرض کے بوجھ تلے ملک کو دبا کر اپنے لئے مشکلات پیدا کردیں ہیں۔ انہیں ملک کی معاشی صورتحال کے زوال اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بھی اپنے عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سری لنکا کو 2019ء میں مسیحی تہوار ایسٹر پر حملے کے بارے میں بھی وکریمی سنگئی سرکار کو پیشگی مطلع کیا تھا لیکن اس نے اس اطلاع کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ عوام نے اس پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا اور اسی وجہ سے گوٹابھایا صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوگئے۔
ایک ایسے وقت میں جب بھارت کےساتھ نیپال اور بنگلہ دیش کے تعلقات خراب ہورہے ہیں، بھارت کو راجا پکشوں اور کولمبو کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ جبکہ کولمبو کو بھی ماضی قریب کے تجربات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے چین کے ساتھ حد سے زیادہ تعلقات بنانے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بگاڑنے سے احتراض کرنا ہوگا۔ دونوں ملکوں کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر افراد کے آپسی تعلقات کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اس ضمن میں سابق خارجہ سیکرٹری شام سرن نے گوٹابھایا کی فتح کے بعد ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھا، ’’پڑوسی ممالک کے لیڈروں کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون نہیں، ایک بے سود بات ہے۔ اس بہتر ہے کہ پڑوسی مالک کے ساتھ بعض یکساں مفادات، آپسی میلان اور اصولوں کی بنیاد پر تعلقات آگے بڑھائے جائیں۔ اسکے نتیجے میں فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔‘‘