ایسے وقت پر جب ملک کورونا وائرس کی وبأ کی وجہ سے افسوسناک آفات سے گذر رہا ہے،وزیرِ اعظم کے اس اعلان نے نئی امیدیں جگائی ہیںکہ وہ بھارت کو 'آتما نربھر بھارت' کے بطور نئی قوت پخشیں گی۔کئی ممالک پہلے ہی اپنی معیشتوں کو بحال کرنے کیلئے پیکیجز کا اعلان کرچکے ہیں جنکی پیداوار،روزگار اور دیگر سبھی شعبہ جات کورونا وائرس کی وجہ سے سُست روی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ بھارت میں بھی کئی ماہرین کی جانب سے کئی تجاویز تھیں کہ موجودہ بحران سے نمٹنے کیلئے سرکار کا پیکیج کیسا ہونا چاہیئے۔ وزیرِ اعظم مودی نے چند دن پہلے اعلان کیا کہ انہوں نے کورونا (وائرس) بحران کو ایک موقعہ میں بدل کر بھارت کو خود پر انحصار کرنے والا ملک بنانے کیلئے 20 لاکھ کروڑ روپے کا پیکیج تیار کیا ہے۔ انہوں نے پانچ استونوں-ہمہ گیر معیشت،ڈھانچہ اور ادارہ جاتی اصلاحات،قوتِ نوجواناں اور ڈیمانڈ اینڈ سپلائی چین کو بر قرار رکھنا، پر ایک’’سیلف ریلائینٹ انڈیا‘‘ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
وزیرِ خزانہ کے تجویز کردہ پانچ مرحلوں والے پیکیج کے مطابق نرملا سیتارمن خود انحصاری کا خواب تو رکھتی ہیں لیکن انکے پاس موجودہ مسائل کا کوئی ٹھوس حل نہیں ہے۔حالانکہ 20.97 لاکھ کروڑ روپے کا پیکیج مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 10 فیصد کے برابر لگتا ہے، مرکزی خزانہ پر نیٹ بوجھ فقط 1.1 فیصد یعنی 2.17 لاکھ کروڑ روپے ہے! یہ بات حیران کن ہے کہ جب اقتصادی شعبہ کے بیشتر بازو مفلوج ہیں مائیکرو سمال اینڈ میڈئم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای ایس) پر ہمدری کی گئی ہے جبکہ بڑی صنعتوں کو پوری طرح بھلا دیا گیا ہے۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ موجودہ محرک (وزیرِ اعظم کا اعلان کردہ پیکیج) کس طرح کورونا وائرس کی وجہ سے غم میں ڈوبی 130کروڑ کی آبادی کو اس صورتحال سے کیسے نکال پاتی ہے!
ایشئن ڈیولوپمنٹ بینک (اے ڈی بی) نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ کورونا (وائرس)،جو کئی جنگوں کے برابر کی تباہی مچاتا آرہا ہے،دنیا کے جی ڈی پی کا 10 فیصد اور 24.2 بلین روزگار ختم کردے گا۔ کئی حدود کے باوجود مرکزی سرکار نے ،غالباََ سخت اقدامات کا نفاذ کرکے پیداواری خسارے کو کسی حد تک کم کرنے کی امید سےتالہ بندی ختم کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ مرکزی سرکار جس نے زیادہ تر ان تجاویز کو بطورِ ہیلی کاپٹر منی اور کوانٹیٹیٹیو ایزنگ نظرانداز کردیا ہے، اس نے اب مائیکرو سمال اینڈ میڈئم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای ایس) پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ نتن گڈکری کہتے ہیں کہ مرکزی سرکار،ریاستی سرکاریں اور پبلک سیکٹر یونئنز پر ایم ایس ایم ای ایس کا 5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ واجب الادا ہے۔ اس رقم کی واپسی کی بجائے مرکزی سرکار نے ایم ایس ایم ای ایس کیلئے 3 لاکھ کروڑ کی بینک قرضہ سہولت کیلئے صد فیصد شورٹی کی پیشکش کی ہے۔موجودہ مشکل وقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرکزی سرکار کو قرضے کی واپسی کی مدت میں موجودہ چار سال کی بجائے دس سال تک کی توسیع کرنی چاہیئے تھی۔
مرکزی سرکار کی غریبوں کے کھاتوں میں 33,176 کروڑ روپے کی رقم جمع کرانے کی دعویداری سے ان غریبوں کی ضرورت ذرہ برابر بھی پوری نہیں ہوتی ہے۔ اب جب شراب کی دکانوں کو کھول دیا گیا ہے نام نہاد اقدامِ بہبودی کاالعدم قرار پاتا ہے!
چونکہ مہاجر مزدور اپنی آبائی ریاستوں کو لوٹ چکے ہیں مرکزی سرکار نے روزگار ضمانتی کاموں (ایمپلائمنٹ گارنٹی ورکس) کیلئے اضافی 40,000 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔وزیرِ خزانہ ،جنہوں نے پیداوار اور ادھار سہولت (کریڈٹ فیسلٹی) پر توجہ کی ہوئی ہے، وہ سپلائی چین اینڈ ڈیمانڈ گروتھ کو بھول چکی ہیں۔ ملک کی خود انحصاری کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے پالیسیوں کا زیادہ سے زیادہ مؤثر اور ہر فن مولا ہونا ضروری ہے!