ETV Bharat / opinion

India vs Bharat انڈیا یعنی بھارت، انگریزوں کے آنے سے کئی سال پہلے موجود تھا - وزیر اعظم نریندر مودی

سیلیش نیماگڈّا لکھتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک کے نام کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اگر حکمران جماعت کو انڈیا کے نام پر کوئی اعتراض ہے تو وہ بھارت کا نام استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن اگر مرکز اس نام کو مکمل طور پر ہٹانے کا عزم کرتا ہے تو یہ خوش آئند نہیں ہے۔ India, that is Bharat, existed millennia before the British arrived

India... that is Bharat!
India... that is Bharat!
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 8, 2023, 9:00 AM IST

Updated : Sep 8, 2023, 9:34 AM IST

سیلیش نیماگڈّا لکھتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک کے نام کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اگر حکمران جماعت کو انڈیا کے نام پر کوئی اعتراض ہے تو وہ بھارت کا نام استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن اگر مرکز اس نام کو مکمل طور پر ہٹانے کا عزم کرتا ہے تو یہ خوش آئند نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے نام جاری کردہ جی 20 ڈنر کے دعوت نامے میں "پریسیڈنٹ آف بھارت" کے طور پر ان کے آئینی عہدے کا تذکرہ کیا گیا اور آسیان کے ایک سرکاری نوٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو "پرائم منسٹر آف بھارت " لکھا گیا جس نے ایک بحث کو جنم دیا ہے کہ مرکز ملک کا نام انڈیا سے بدل کر بھارت کرنے جا رہاہے۔اس پس منظر میں ایک رائے بڑے پیمانے پر پھیلائی جا رہی ہے کہ انگریزوں نے ملک کا نام 'انڈیا' رکھا تھا اور یہ نام ہمارے ماضی کا ایک سابقہ نظریہ ہے۔ تاریخ قدامت پسندانہ آراء کا مرکب نہیں ہے جو چند آرتھوڈوکس افراد کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ آثار قدیمہ کے نتائج ،تحریری ثبوت ، عددی، سماجی، ثقافتی اور ادبی ثبوتوں سے سامنے آنے والے حقائق کے منظم تجزیے کا نتیجہ ہے۔

ہمارے ملک کے نام 'انڈیا' کے بارے میں جو منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، اس کے درمیان یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی پر ایک نظر ڈالیں۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی تین قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ انڈیا نام کی جڑیں اس تہذیب میں پیوست ہیں جو عیسائی دور سے 3000 سال پہلے پروان چڑھی تھی۔چونکہ ایس(S) آواز سے شروع ہونے والے الفاظ ان کی زبان میں نایاب تھے، قدیم فارسیوں نے دریائے سندھ کو ہند (Hind) کہا۔ یونانیوں نے اسے انڈس(Indus) کہا۔ تقریباً 440 قبل مسیح میں یونانی مورخ ہیروڈوٹس(Herodotus) نے سندھ کے پانی سے بھیگنے والی زمین کو 'ہی ہندیکے چور' (He Hindike Chore) یعنی سندھ کی سرزمین قرار دیا۔

یونانی دانشور میگاستھینیز(Megasthenes) جو بابائے ہندوستان تاریخ کے طور پر مشہور ہوئے، انھوں نے 300 قبل مسیح میں اپنے کام کا عنوان ’انڈیکا‘ رکھا۔ اس وقت برطانیہ (Britain) نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔ "بریٹیشر" کی اصطلاح 1707ء میں عظیم برطانیہ کے وجود میں آنے کے بعد مقبول ہوئی۔اگر یہ سچ ہے تو ہم اپنے ملک کو انڈیا بنانے کا سہرا انگریزوں کے سر کیسے رکھ سکتے ہیں؟ انگریزوں کے یہاں آنے سے کم از کم 2,000 سال پہلے یہ سرزمین عالمی سطح پر انڈیا کے طور پر مشہور تھی۔ ایک ملک کے طور پر انڈیا کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ انڈیا نام کی جڑیں وادی سندھ کی تہذیب میں ہے، جس پر پوری قوم کو فخر ہے،یہ 140 کروڑ لوگوں کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کی علامت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جی ٹوئنٹی عشائیہ کے دعوت نامہ میں پریسڈینٹ آف انڈیا کے بجائے پریسڈینٹ آف بھارت کیوں لکھا گیا، کانگریس برہم

یہ نوٹ کرنا بھی کافی دلچسپ ہے کہ جس طرح سے 'بھارت' (Bharat) کی اصطلاح آ سیتھو ہماچلم (Aa Sethu Himachalam) کے ساتھ منسلک ہوئی۔ بھارتا (Bharata) کی اصطلاح رگ ویدک دور میں لوگوں کے قبیلے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ دس بادشاہوں کی رِگ ویدک جنگ کے فاتح بادشاہ سوداس (King Sudas) کا تعلق بھارتا قبیلے سے تھا۔ ان دنوں بھارتا کے ساتھ ساتھ پُورو، یادُ ، ترواسا اور دیگر قبیلے بھی موجود تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ 'بھارتا بھومی' اور 'بھارتا ورشا' جیسی اصطلاحات مہا بھارت اور وشنو پران میں ایک علاقے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو، 'بھارتا ورشا' کی اصطلاح اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور کے قریب پائے جانے والے مشہور ہاتھی گمپھا (Hathi Gumpha) کتبے میں استعمال کی گئی تھی۔قدیم کلنگا بادشاہ کھراویلا کے نام پر کندہ ، نوشتہ بیان کرتا ہے کہ کھراویلا نے 'بھارتا ورشا' پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ اس کے مطابق 'بھارتا ورشا' وہ جغرافیائی علاقہ تھا جس میں گنگا کے میدانی علاقے شامل تھے۔ اسی طرح، 'بھارتا ورشا' کی اصطلاح دوسری صدی قبل مسیح اور پہلی صدی عیسوی کے درمیان کھراویلا کے ذریعے تاریخی نوشتوں کے دائرے میں داخل ہوئی۔

اس سے بہت پہلے یونانی مورخین کی تخلیقات کے ذریعے 'انڈیا' (India) نام دوسرے ممالک میں مشہور ہوا۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا کہ "اکثر، جب میں ایک اجلاس سے دوسرے اجلاس میں جاتا تھا، میں نے اپنے سامعین سے اپنے اس انڈیا ، ہندوستان اور بھارتا کے بارے میں بات کی، سنسکرت کا پرانا نام نسل کے افسانوی بانی سے ماخوذ ہے۔ "انہوں نے اپنے کام میں ملک کے تینوں ناموں – انڈیا، ہندوستان اور بھارت کا ذکر کیا۔ آئین کے پہلے آرٹیکل میں قوم کے بانیوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’انڈیا ہی بھارت ہے…‘‘ اس لیے یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کے نام پر ہی ایک تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اگر حکمران جماعت کو انڈیا نام پر کوئی اعتراض ہے تو وہ بھارت کا نام استعمال کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر مرکز اس نام کو مکمل طور پر ہٹانے کا عزم کرتا ہے تو یہ خوش آئند نہیں ہے۔

آنے والے انتخابات میں اقتدار کی دہی ہانڈی ( Dahi Handi) مارنے کے عزم پر پختہ اپوزیشن جماعتوں نے کافی غور و خوض کے بعد اپنے اتحاد کا نام انڈیا رکھا ہے۔ حکمران جماعت کے حامی جو کہہ رہے ہیں کہ انڈیا کا نام بھول جائیں، ان کے اس موقف کے پیچھے اپوزیشن کے خلاف گول کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہے۔کیا ایسے غیر ضروری تنازعات کی وجہ سے ملک کا وقار مجروح نہیں ہو گا جب عالمی رہنما جی 20 سمٹ میں شرکت کے لیے دہلی میں جمع ہونے جا رہے ہیں؟ اگر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس صرف ملک کا نام بدلنے کے لیے ہے تو کیا اس معاملے پر بحث و تکرار سے ملک کے امیج اور اس کی جمہوری پختگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا؟

اب وقت آگیا ہے کہ سبھی یہ سمجھیں کہ انڈیا نام ہمارے تمام ہم وطنوں کے جذبات سے جڑا ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ وکسیت بھارت یعنی ترقی یافتہ بھارت کو حاصل کرنے کے لیے مرکز اور ریاستوں کو مل کر 'ٹیم انڈیا' کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے پیغام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سب کو اجتماعی طور پر ترقی پسند پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس لیے ملک کا نام بدلنے دینے کی جلد بازی سے 'ٹیم انڈیا' کے جذبے کو شدید دھچکا لگے گا۔ اتنی تیزجلد بازی واقعی ناپسندیدہ ہوگی۔

سیلیش نیماگڈّا لکھتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک کے نام کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اگر حکمران جماعت کو انڈیا کے نام پر کوئی اعتراض ہے تو وہ بھارت کا نام استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن اگر مرکز اس نام کو مکمل طور پر ہٹانے کا عزم کرتا ہے تو یہ خوش آئند نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے نام جاری کردہ جی 20 ڈنر کے دعوت نامے میں "پریسیڈنٹ آف بھارت" کے طور پر ان کے آئینی عہدے کا تذکرہ کیا گیا اور آسیان کے ایک سرکاری نوٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو "پرائم منسٹر آف بھارت " لکھا گیا جس نے ایک بحث کو جنم دیا ہے کہ مرکز ملک کا نام انڈیا سے بدل کر بھارت کرنے جا رہاہے۔اس پس منظر میں ایک رائے بڑے پیمانے پر پھیلائی جا رہی ہے کہ انگریزوں نے ملک کا نام 'انڈیا' رکھا تھا اور یہ نام ہمارے ماضی کا ایک سابقہ نظریہ ہے۔ تاریخ قدامت پسندانہ آراء کا مرکب نہیں ہے جو چند آرتھوڈوکس افراد کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ آثار قدیمہ کے نتائج ،تحریری ثبوت ، عددی، سماجی، ثقافتی اور ادبی ثبوتوں سے سامنے آنے والے حقائق کے منظم تجزیے کا نتیجہ ہے۔

ہمارے ملک کے نام 'انڈیا' کے بارے میں جو منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، اس کے درمیان یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی پر ایک نظر ڈالیں۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی تین قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ انڈیا نام کی جڑیں اس تہذیب میں پیوست ہیں جو عیسائی دور سے 3000 سال پہلے پروان چڑھی تھی۔چونکہ ایس(S) آواز سے شروع ہونے والے الفاظ ان کی زبان میں نایاب تھے، قدیم فارسیوں نے دریائے سندھ کو ہند (Hind) کہا۔ یونانیوں نے اسے انڈس(Indus) کہا۔ تقریباً 440 قبل مسیح میں یونانی مورخ ہیروڈوٹس(Herodotus) نے سندھ کے پانی سے بھیگنے والی زمین کو 'ہی ہندیکے چور' (He Hindike Chore) یعنی سندھ کی سرزمین قرار دیا۔

یونانی دانشور میگاستھینیز(Megasthenes) جو بابائے ہندوستان تاریخ کے طور پر مشہور ہوئے، انھوں نے 300 قبل مسیح میں اپنے کام کا عنوان ’انڈیکا‘ رکھا۔ اس وقت برطانیہ (Britain) نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔ "بریٹیشر" کی اصطلاح 1707ء میں عظیم برطانیہ کے وجود میں آنے کے بعد مقبول ہوئی۔اگر یہ سچ ہے تو ہم اپنے ملک کو انڈیا بنانے کا سہرا انگریزوں کے سر کیسے رکھ سکتے ہیں؟ انگریزوں کے یہاں آنے سے کم از کم 2,000 سال پہلے یہ سرزمین عالمی سطح پر انڈیا کے طور پر مشہور تھی۔ ایک ملک کے طور پر انڈیا کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ انڈیا نام کی جڑیں وادی سندھ کی تہذیب میں ہے، جس پر پوری قوم کو فخر ہے،یہ 140 کروڑ لوگوں کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کی علامت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جی ٹوئنٹی عشائیہ کے دعوت نامہ میں پریسڈینٹ آف انڈیا کے بجائے پریسڈینٹ آف بھارت کیوں لکھا گیا، کانگریس برہم

یہ نوٹ کرنا بھی کافی دلچسپ ہے کہ جس طرح سے 'بھارت' (Bharat) کی اصطلاح آ سیتھو ہماچلم (Aa Sethu Himachalam) کے ساتھ منسلک ہوئی۔ بھارتا (Bharata) کی اصطلاح رگ ویدک دور میں لوگوں کے قبیلے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ دس بادشاہوں کی رِگ ویدک جنگ کے فاتح بادشاہ سوداس (King Sudas) کا تعلق بھارتا قبیلے سے تھا۔ ان دنوں بھارتا کے ساتھ ساتھ پُورو، یادُ ، ترواسا اور دیگر قبیلے بھی موجود تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ 'بھارتا بھومی' اور 'بھارتا ورشا' جیسی اصطلاحات مہا بھارت اور وشنو پران میں ایک علاقے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو، 'بھارتا ورشا' کی اصطلاح اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور کے قریب پائے جانے والے مشہور ہاتھی گمپھا (Hathi Gumpha) کتبے میں استعمال کی گئی تھی۔قدیم کلنگا بادشاہ کھراویلا کے نام پر کندہ ، نوشتہ بیان کرتا ہے کہ کھراویلا نے 'بھارتا ورشا' پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ اس کے مطابق 'بھارتا ورشا' وہ جغرافیائی علاقہ تھا جس میں گنگا کے میدانی علاقے شامل تھے۔ اسی طرح، 'بھارتا ورشا' کی اصطلاح دوسری صدی قبل مسیح اور پہلی صدی عیسوی کے درمیان کھراویلا کے ذریعے تاریخی نوشتوں کے دائرے میں داخل ہوئی۔

اس سے بہت پہلے یونانی مورخین کی تخلیقات کے ذریعے 'انڈیا' (India) نام دوسرے ممالک میں مشہور ہوا۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا کہ "اکثر، جب میں ایک اجلاس سے دوسرے اجلاس میں جاتا تھا، میں نے اپنے سامعین سے اپنے اس انڈیا ، ہندوستان اور بھارتا کے بارے میں بات کی، سنسکرت کا پرانا نام نسل کے افسانوی بانی سے ماخوذ ہے۔ "انہوں نے اپنے کام میں ملک کے تینوں ناموں – انڈیا، ہندوستان اور بھارت کا ذکر کیا۔ آئین کے پہلے آرٹیکل میں قوم کے بانیوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’انڈیا ہی بھارت ہے…‘‘ اس لیے یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کے نام پر ہی ایک تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اگر حکمران جماعت کو انڈیا نام پر کوئی اعتراض ہے تو وہ بھارت کا نام استعمال کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر مرکز اس نام کو مکمل طور پر ہٹانے کا عزم کرتا ہے تو یہ خوش آئند نہیں ہے۔

آنے والے انتخابات میں اقتدار کی دہی ہانڈی ( Dahi Handi) مارنے کے عزم پر پختہ اپوزیشن جماعتوں نے کافی غور و خوض کے بعد اپنے اتحاد کا نام انڈیا رکھا ہے۔ حکمران جماعت کے حامی جو کہہ رہے ہیں کہ انڈیا کا نام بھول جائیں، ان کے اس موقف کے پیچھے اپوزیشن کے خلاف گول کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہے۔کیا ایسے غیر ضروری تنازعات کی وجہ سے ملک کا وقار مجروح نہیں ہو گا جب عالمی رہنما جی 20 سمٹ میں شرکت کے لیے دہلی میں جمع ہونے جا رہے ہیں؟ اگر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس صرف ملک کا نام بدلنے کے لیے ہے تو کیا اس معاملے پر بحث و تکرار سے ملک کے امیج اور اس کی جمہوری پختگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا؟

اب وقت آگیا ہے کہ سبھی یہ سمجھیں کہ انڈیا نام ہمارے تمام ہم وطنوں کے جذبات سے جڑا ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ وکسیت بھارت یعنی ترقی یافتہ بھارت کو حاصل کرنے کے لیے مرکز اور ریاستوں کو مل کر 'ٹیم انڈیا' کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے پیغام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سب کو اجتماعی طور پر ترقی پسند پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس لیے ملک کا نام بدلنے دینے کی جلد بازی سے 'ٹیم انڈیا' کے جذبے کو شدید دھچکا لگے گا۔ اتنی تیزجلد بازی واقعی ناپسندیدہ ہوگی۔

Last Updated : Sep 8, 2023, 9:34 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.