پوری دنیا کووڈ 19 کی ویکسین کو جلد از جلد تیار کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، وہیں کچھ ممالک وائرس کی دوسری لہر کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں عالمی سیاحت کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوگیا ہے اور اس کے دوبارہ شروع کرنے کے لیے اخراجات میں اضافہ کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ تاہم کچھ ممالک اپنے گھریلو سیاحت کو دوبارہ بحال کررہے ہیں اور مالدیب جیسے ملک نے رواں ماہ سے بین الاقوامی زائرین کا استقبال کرنا بھی شروع کردیا ہے۔
مالدیپ کی 80 فیصد معیشت بلاواسطہ یا بالواسطہ سیاحت پر منحصر ہے۔ ایک جزیرے میں سمٹا ہوا یہ چھوٹا ملک اپنے غیر ملکی زائرین کو تحفظ اور حفظان صحت سے متعلق یقین دہانی کروارہی ہے، یہاں تک کہ مالدیپ ہمیشہ سے بھارتی سیاحوں کی پہلی پسند رہی ہے لیکن سرحدوں کی سیل ہونے کی وجہ سے یہاں سیاحتوں کی کمی نظر آرہی ہے،سینئر صحافی سمیتا شرما کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں بھارتی ہائی کمیشنر سنجے سدھیر نے مالدیپ کی راجدھانی مالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بین الاقوامی سیاحت کو دوبارہ بحال کرنے کے تناظر میں ملک کا جغرافیہ بہت اہم عنصر ثابت ہوتا ہے اور اس وجہ سے مالدیپ کے سیاحت کو اس نے زبردست متاثر کیا ہے۔
سنجے سدھیر نے کہا کہ پوری دنیا میں مالدیپ پہلا ملک ہے جس نے سیاحتی نظام کو دوبارہ بحال کیا ہے۔15جولائی سے یہاں سیاحوں کا آنا شروع ہوگیا ہے۔200 میں سے تقریبا 57-60 ریسورٹ نے کام کرنا بھی شروع کردیا ہے۔مالدیپ کے جزائر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں ہیں اس لیے ان پر قابو کرنا آسان ہوگا۔لیکن وہیں دوسری طرف مالدیپ کا درالحکومت کافی گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔یہاں اگر کوئی ایک شخص بھی کورونا سے متاثر پایا گیا تو صورتحال کو قابو کرنا مشکل ہوجائے گا، لیکن یہاں کی حکومت نے ہوائی اڈے پر اترنے والے مسافروں کے لیے ایک طرح کے محفوظ راستے کو تیار کیا ہے اور وہ اس راستے کے ذریعہ وہ سیدھے جزیروں پر جاتے ہیں، وہاں اپنی چھٹیاں گزارتے ہیں پھر اسی راستے کے ذریعہ ہوائی اڈئے پر واپس آکر متعلقہ ملک روانہ ہوجاتے ہیں۔
سفارتکار نے بتایا کہ گزشتہ برس مالدیپ نے اپنی چھوٹی آبادی 5 لاکھ کے مقابلے تقریبا 1.7 ملین سیاحوں کا خیرمقدم کیا تھا، وہیں مالدیپ میں بھارتی اب غیر ملکی سیاحوں کا دوسرا سب سے بڑا گروپ ہے۔چونکہ مالدیپ معاشی بحالی کے ساتھ جدوجہد کررہا ہے اس لیے امید ہے کہ اگست کے وسط تک ممبئی اور کوچن سے بھارتی زائرین کی پرواز کے لیے محدود کمرشل فلائٹ شروع کردی جائیں گی۔
سنجے سدھیر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین ممکنہ 'ائیر ببل' معاہدے پر بات چیت جاری ہے۔ہم پہلے پانچویں نمبر پر تھے لیکن پھر مالدیپ میں بھارتی سیاحوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے اور اب اس لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہیں۔لیکن رابطے میں خلل ہونے کی وجہ سے اور کووڈ 19 کی صورتحال کی اوجہ سے بھارتی سیاحوں کی آمد پر کمی واقع ہوگئی ہے۔ان دنوں ہم پروازوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جس کے لیے ہم وزارت ہوا بازی اور ائیر انڈیا کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اگر حالات بہتر رہیں تو ہم بھارت اور مالدیپ کے درمیان کم از کم محدود تعداد میں پراوزیں شروع کردیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ دونوں ممالک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہیںکیونکہ ہم نے بہتر شروعات کی ہے اور مالدیب کے جزائر کی ساخت کی وجہ سے یہ ایک محفوط ملک ہے۔کچھ علاقہ کورونا متاثر ہیں لیکن اس کے علاوہ یہ ایک محفوظ ملک ہے۔
تاہم بین الاقوامی سطح پر بین الاقوامی پرواز کرنے کے لیے ایک بار پھر لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا گلوبل ہاسپیٹیلٹی اور ایوئیشن شعبوں کو درپیش بہت سے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔تھائی لینڈ یا یوروپی ممالک کے مشہور سیاحتی مقامات کے لیے، اب تک کے آمدنی حاصل کرنے کا ذریعہ گھریلو سیاحت ہی ہے۔
دہلی سے جرمن سفارتخانے کے ترجمان کرسٹین ونکلر نے سمیتا شرما سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے جرمن باشندے پہلی بار جرمنی میں ہی اپنی چھٹیاں گزار رہے ہیں۔جرمنی کے زیادہ تر عوام جو گھر پر رہنا پسند نہیں کرتے ہیں وہ چھٹیوں کے وقت جنوبی یوروپی ممالک اٹلی، اسپین، یونان میں اپنا وقت گزارتے ہیں لیکن اسپین میں حال ہی میں کورونا مثبت معاملے میں اضافہ ہونے کی وجہ سے وہ ابھی ملک میں ہی رہنا پسند کر رہے ہیں۔ہم جرمنی میں ان سیاحوں کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں جو ان ممالک سے واپس آرہے ہیں، ہم بات کر رہے ہیں ان ممالک میں سیاحوں کے تجربات کیسے رہے؟ کیا ان کا ٹیسٹ کیا گیا، انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا یا نہیں؟جرمنی میں صرف تھائی لینڈ اور ویتنام ہی ایشیاء کے دو ممالک ہیں جو مثبت فہرست میں جگہ بناپائے ہیں۔جرمنی کی سیاحتی صنعت کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن وہ اتنی بڑی نہیں ہیں جتنی امید ظاہر کی جارہی تھی کیونکہ زیادہ تر جرمن اپنے گھر میں ہی رہ رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ بین الاقوامی سفر کی لاگت میں اضافہ ہونے کے امکان ہیں۔جرمنی آنے والے زیادہ تر افراد، ہمارے پڑوسی ممالک جیسے فرانس ، نیدرلینڈز ، برطانیہ اور اسپین سے ہیں۔جرمنی آنے والے زائرین کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن سفر کے اخراجات کو مزید مستحکم کرنا ضروری ہے،جیسے بھارت میں ہوٹلوں اور ریستوران میں سے زیادہ سے زیادہ صارفین نہیں آسکتے، ویسے ہیں ہی صورتحال ہمارے ساتھ ائیر لائنس کی ہے جو مزید مشکل دور سے گزر رہی ہیے، ایسے میں ٹیکس دہندگان کے ذریعہ انہیں بچانا پڑتا ہے۔اہے وہ فرانس میں ایئر فرانس ہو یا جرمنی میں لوفتھانسا۔ لہذا ریاستوں نے ان کمپنیوں کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ان کمپنیوںمیں حصص لیا ہے۔یہ ٹریول آپریٹر اور ائیرلائنز کو مزید مشکلات سے دوچار ہیں۔جرمنی میں ہوٹل اور ریستورنٹ جیسے تیسے چل رہے ہیںلیکن ان میں سے کچھ مشہور ہوٹلوں کو بند کرنا پڑا کیونکہ ان کی اخراجات کی لاگت زیادہ تھی۔آپ صارفین سے ایک حد تک قیمت وصول کرسکتے ہیں۔اس لیے ان میں سے کچھ ہوٹل مالی بحالی کا شکار ہیں۔وہیں انہوں نے کہا کہ کچھ کچھ یوروپی ممالک کورونا کی دوسری لہر کے بارے میں بات کررہے ہیں ایسے میں صحتیابی کے لیے مقررہ وقت کے بارے میں بات کرنا مشکل ہے۔
نئی دہلی میں تھائی لینڈ کی ٹورزم اتھارٹی کے ڈائریکٹر واچیراچائی سیرسمپن نے کہا کہ اس بات کے امکان کم نظر آرہے ہیں کہ بین الاقوامی سیاحت بہت جلد بحال ہوگئی ۔انہوں نے کہا کہ یکم جولائی کو اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (یو این سی ٹی اے ڈی) کے ذریعہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، عالمی سیاحت کے شعبے میں کم از کم 1.2 ٹریلین امریکی ڈالر یا عالمی جی ڈی پی کا 1.5 فیصد خسارے ہونے کے امکان ظاہر کیے ہیں۔یو این ورلڈ، ٹورزم آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق 2020 میں بھارت سے آنے والے زائرین کی تعداد 2019 میں 29 ملین سے کم ہوکر 10 ملین ہوجائے گی۔جبکہ کووڈ 19 سے قبل اندازے سے معلوم ہوا تھا تقکہریبا 50 ملین بھارتی بیرون ممالک کا سفر کریں گے۔سنگاپور، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، مالدیپ، نیپال، سری لنکا اور بھوٹان جیسے ممالک بھارتی سیاحتوں کی پسندیدہ سیاحتی مقامات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "تھائی لینڈ میں گھریلو سیاحت تقریبا معمول کی صورتحال پر واپس آ گئی ہے۔ تاکہ لوگ آزادانہ طور پر ملک بھر میں سفر کرسکیں۔ بین الاقوامی سیاحت میں کچھ وقت لگے گا۔میں یہ نہیں کہ سکتا کہ کب ہوگا یہ لیکن لیکن موجودہ صورتحال میں ہمیں حفاظت اور اقتصادی توازن دونوں کی ضرورت ہے جو ہر ملک کے لئے بہت مشکل ہے۔اس وقت ہم آہستہ آہستہ اپنا قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ہم نے ان غیر ملکیوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے جو بنیادی طور پر تھائی لینڈ میں کام کرتے ہیں ہیں یا جن کا طبی علاج چل رہا ہے۔اس صورتحال میں تھائی سیاحت کو ایک بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔