لائن آف ایکچول کنٹرول میں بھارتی اور چینی فوجیوں کو آمنے سامنے کھڑے ہوئے 8 ہفتوں کا وقت گزر چکا ہے۔ گلوان وادی میں پی ایل اے کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں میں 20 بھارتی جوان کو ہلاک ہونے کے ہفتوں بعد ڈی ایسکلیشن کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔دونوں فریقوں کے خصوصی نمائندوں کے درمیان ہوئے مزاکرات کے ایک دن بعد یہ عمل پیش آیا ہے۔جس کی تصدیق اب وزرات خارجہ نے کی ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور ریاستی کونسلر اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے 5 جولائی کو تقریبا دو گھنٹوں تک ٹیلیفون پر بات چیت کی۔ لداخ کے مغربی سیکٹر کے حوالے سے دونوں فریقوں نے واضح طور پر اپنی باتیں رکھی۔
گزشتہ ماہ کے شروعات میں وزیر خارجہ جئے شنکر نے گلوان میں ہوئے پرتشدد جھڑپ کے بارے میں وانگ یی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔بعد میں یہ دونوں رہنما آر آئی سی(روس، بھارت، چین) کے تحت اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ایک ورچوئل ملاقات کا بھی حصہ تھے، جس مین کووڈ 19 کے تعاون کے حوالے سے بات چیت منعقد کی گئی تھی۔حالانکہ یہ دو طرفہ ایل اے سی تنازعہ آر آئی سی کے اینجڈے کا حصہ نہیں تھا۔
اتوار کے روز ڈووال اور وانگ کے درمیان ہوئی بات چیت اہمیت کے حامل ہے کیونکہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ان دونوں رہنماؤں کو خصوصی نمائندے(ایس آر) کی ذمہ داری دی گئی ہے۔بیجنگ میں موجودہ حکومتی تنظیم کے مطابق ریاستی کونسلر کا درجہ وزیر خارجہ سے زیادہ بلند ہے،ڈووال ینگ جینچی کے ساتھ ان سارے معاملات کو دیکھ رہے تھے، جو سنہ 2017 تک چینی ریاستی کونسلر اور ایس آر کا عہدہ سنبھال رہے تھے۔وانگ یی تب اس وقت صرف وزیر خارجہ تھے۔
بھارت نے اب دونوں خصوصی نمائندوں کے مابین ترسیلی ذرائع کو دوبارہ بحال کرکے ایک اعلی سطحی سفارتی مذاکرات کے جانب اشارہ کیا ہے۔عہدیداروں کے مطابق دونوں نے اس بات پر اتفاق ظاہر کی ہے کہ اختلافات کو تنازعات کی شکل اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہییے۔ساتھ میں ان دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں طرف کے سیاسی رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے کا ہونا ضروری ہے تاکہ بھارت چین سرحد کے علاقوں میں امن و امان برقرار رکھا جاسکے۔
انہوں نے اتفاق کیا کہ امن و سکون کی مکمل بحالی کے لیے بھارت چین سرحدی علاقوں اور ایل اے سے جلد از جلد فوجیوں کو ہٹانے اور ڈی ایسکلیشن کو یقنی بنانا ضروری ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میںکہا گیا کہ اس سلسلے میں دونوں نے مزید اس بات پر اتقاق کی ہے کہ دونوں ہی ممالک ایل اے سی سے فوجیوں کو ہٹانے کا عمل جلد از جلد مکمل کریں گے۔
بھارتی عہدیداروں کے مطابق ، دونوں ایس آر نے ہندوستان چین سرحدی علاقوں میں ایک ’مرحلہ وار اور قدم بہ قدم ڈی اسکیلائزیشن‘ کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا ہے۔حالانکہ اس سے قبل بھی فوجی سطح پر ہوئی مذاکرات کے دوران بھی اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
دونوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ دونوں ممالک کو لائن آف ایکچول کنٹرول کا سختی سے احترام کرنا چاہیے اور اس صورتحال میں تبدیلی لانے کے لیے ایکطرفہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے اور مستقل میں سرحدی علاقوں میں امن و سکون کو برباد کرنے والے واقعے سے بچنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
حالانکہ جہاں چینی وزرات خارجہ نے اپنے بیان میں سرحد پر امن و سکون برقرار رکھنے کی اہمیت اور دو ایشیائی پڑوسی ممالک کی طویل مدتی اسٹریٹجک مشترکہ مفادات پر زور دیا، وہیں انہوں نے اپنے اس بیان میں ایل اے سی کی سختی سے احترام کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔جبکہ چین کا یہ بیان اس بات پر ہی مقیم ہے کہ بھارتی فوج کے ذریعہ وادی گلوان میں تشدد پیدا ہوا تھا۔
بیجنگ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کچھ دن قبل وادی گلوان میں بھارت اور چین کے سرحد کے مغربی حصے کے درمیان جو کچھ ہوا وہ بالکل واضح ہے۔چین اپنی علاقائی، خودمختاری اور سرحدی علاقے اور امن کا موثر انداز میں دفاع کرے گا۔
بھارت اور چین نے فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔جس میں ورکنگ میکانزم فار کنسلٹیشن اینڈ کور آڈینیشن آن انڈیا چین بارڈر(ڈبلیو ایم سی سی ) کے تحت تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں ایس آرز نے اپنی بات چیت میں" سمجھوتوں کو عملی جامہ پہنانے پر اتفاق کیا۔
اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دونوں خصوصی نمائندے اپنی بات چیت کو جاری رکھیں گے تاکہ وہ امن اور سکون کی مکمل بحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔