ETV Bharat / opinion

کووِڈ 19 سے نمٹنے کے لئے پڑوسی ممالک کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت

پی ایچ ایف آئی کے سینئر پبلک ہیلتھ سائنٹسٹ ڈاکٹر پریا بالا سُبرامنیم نے کہا کہ کووڈ 19 کے بحران کے دوران بھارت کو سری لنکا، سنگا پور جیسے کئی دوسرے ممالک سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس نے کورونا کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستیں سری لنکا کے طریقۂ کار سے دو سبق حاصل کر سکتی ہیں۔ ان میں پہلا سبق بیماری پر نظر رکھنے کے لئے ایک مؤثر نظام قائم کرنا ہو سکتا ہے۔ در اصل ماضی میں کئی بیماریوں کا سامنا کرتے ہوئے سری لنکا نے بیماریوں پر نظر رکھنے کا ایک مؤثر نظام قائم کیا ہے۔ سری لنکا نے اس ضمن میں پہلے ہی کافی سرمایہ کاری کی تھی۔ کووِڈ میں اس کا یہ نظام بہت ہی سود مند ثابت ہوا۔

author img

By

Published : Aug 20, 2020, 12:56 PM IST

کووِڈ19  سے نمٹنے کے لئے پڑوسی ممالک کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت
کووِڈ19 سے نمٹنے کے لئے پڑوسی ممالک کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت

کووِڈ 19 کی شدت نے ہر ملک کی طبی صلاحیت کو چیلنج کیا ہے۔ ہر ملک میں طبی خدمات تک رسائی کی مانگ میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ بیشتر ممالک نے کورونا وائرس کو قابو کرنے کے لئے اپنے ملکی سطحوں پر اقدامات کئے ہیں۔ جن میں قومی اور بین الاقوامی سفر اور آمد و رفت کو روکنے، تعلیمی اداروں کو بند رکھنے، عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے، مشتبہ متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے اور لوگوں کو ہاتھ دھونے اور ماسک پہننے کی تلقین کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ہر ملک کووِڈ 19 کے خطرے سے نمٹنے کے لئے مختلف مواقع پر کئی دیگر اقدامات بھی کرچکا ہے یا کررہا ہے۔ سماجی اور معاشی قربانیوں کے عوض کئے گئے ان اقدامات کے نتیجے میں متاثرین کی تعداد میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

چونکہ مختلف ملکوں کے پاس متاثرین کا پتہ لگانے کے اپنے الگ الگ طریقے ہیں اور اپنی اپنی طرز کی طبی سہولیات اور ٹیسٹنگ کے مختلف پیمانے ہیں، اس لئے اس وبا کے حوالے سے ان ممالک کا تقابلی جائزہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس طرح سے نتائج اخذ کرنا گمراہ کن ہوسکتا ہے۔

وبا کو پھیلنے سے روکنے اور انسانی زندگیوں کو بچانے کے لئے فوری اور دُور رس اقدامات کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے چھ سٹریٹجیک رہنما اقدامات بتائے ہیں۔ ان میں ایک، طبی شعبے سے جڑی افرادی قوت کو وسعت دینے، اُن کی تربیت کرنا اور انہیں تعینات کرنا ہے۔ دوسرا سماج میں مشتبہ متاثرین کا پتہ لگانے کے لئے نظام نافذ کرنا۔ تیسرا، ٹیسٹنگ کی صلاحیت اور تعداد بڑھانا۔ چوتھا، مریضوں کا علاج و معالجہ کرنے والوں کو درکار طبی آلات وغیرہ بہم پہنچانا۔ پانچواں، متاثرین اور ان کے ساتھ رابطے میں رہے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھنے کا بہتر منصوبہ۔ چھٹا، اموات کو روکنے کے لئے ضروری طبی سہولیات میسر رکھنا، جیسے رہنما اقدامات شامل ہیں۔

اگرچہ جنوبی ایشیاء اور جنوبی مشرقی ایشیائی خطے میں موجود کئی ممالک نے کووِڈ 19 کو قابو کرنے اور اس کے پھیلاو میں کمی لانے میں مقابلتاً کامیابی حاصل کرلی ہے تاہم بھارت کے تناظر میں ان ممالک میں شامل چند ایک سے ہی ہم سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اس خطے میں عالمی ادارہ صحت کے رہنما قوائد کو عملانے والے تین ممالک سے ہی بھارت کو کووِڈ 19 سے نمٹنے اور اس کے لئے تیاری کرنے کا سبق حاصل ہوسکتا ہے۔

دیہات میں وبا کو قابو کرنے اور اسے روکنے کی تیاری کرنے کا بہترین سبق ہمیں سنگاپور سے ملتا ہے۔ سنگا پور ان ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے پہلے یعنی فروری کے آغاز میں ہی کووِڈ 19 کے کیسز نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یہاں سب سے زیادہ متاثرین کی تعداد مئی اور جون کے مہینوں میں دیکھنے کو ملی۔ یہ سطور لکھے جانے کے وقت سنگاپورہ میں کووِڈ متاثرین کی تعداد 55,580 تھی۔ جبکہ 51,049 متاثرین صحت یاب ہوچکے تھے۔ اب تک ہونے والی کل اموات 27 تھیں۔ دراصل سنگاپور میں حکومت کو کئی اقدامات کی وجہ سے کووِڈ 19 کو قابو کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سنگاپور نے سارس وبا کے تجرنے کی روشنی میں کووِڈ سے نمٹتے ہوئے اقدامات کئے۔ حکومتی ایجنسیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تال میل بنائے رکھا۔ منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ وبا سے نمٹنے کےلئے وافر مقدار میں سرمایہ استعمال کیا۔ ہیلتھ کیئر انفراسٹکچر کو وسعت دی گئی۔اس کے علاوہ یہاں مختلف حکومتی ایجنسیوں کے درمیان تال میل کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک جانب وزارت صحت کی ٹیم متاثرین کی نشاندہی کرتی تھیں اور دوسری جانب پولیس فورس لوگوں کو جسمانی دوریاں بنائے رکھنے، ہاتھ دھونے اور ماسک استعمال کرنے جیسے اقدامات کرواتی رہی۔ چونکہ ہر شہری کی جانچ کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی بھی جائے تو لیبارٹریز پر زبردست دباو بڑھ جائے گا۔ اس لئے ایک بہتر راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ سب سے زیادہ خطرات کے حامل لوگوں کی نشاندہی کی جائے اور ان کی جانچ کی جائے۔ سنگاپور نے یہ کام ملک بھر میں موجود ایک ہزار سرکاری اور غیرسرکاری ہیلتھ کلنکوں کے ذریعے کیا۔ اس کے نتیجے میں متعلقہ طبی ورکز کو اضافی تجربہ بھی حاصل ہوا اور انہیں وبا سے نمٹنے کی تیاری کرنے کی تربیت بھی حاصل ہوئی۔

بھارت کی طرح سنگاپور میں بھی باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے کووِڈ پھیلا۔ کیونکہ باہر سے آنے والے ان لوگوں کو الگ نہیں رکھا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سنگاپور نے اس کے پھیلاو پر قابو پانے کےلئے وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ اور مشتبہ متاثرین کو الگ رکھنے اور متاثرین کے ساتھ رابطے میں رہے لوگوں کو آئی سولیشن میں رکھنے جیسے اقدامات کئے، جو نتیجہ خیز ثابت ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی سطح پر لوگوں کو جانکاری فراہم کرنے کا عمل بھی بروقت، شفاف اور تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ لوگوں اور شہری سماج کے لیڈروں کے درمیان اس مسئلے کے حوالے مسلسل رابطہ قائم رکھا گیا۔ حکومت لوگوں کو وہاٹس اپ اور دیگر ذرائع سے قومی سطح پر بروقت اور تسلسل کے ساتھ جانکاری دیتی رہی۔ سنگاپور میں کورونا وائرس کو قابو کرنے کے حوالے سے سب سے اہم کردیا ہیلتھ ورک فورس نے کیا۔ وبا کے دوران ملک میں افرادی قوت متحرک رہی۔ ان میں غیر طبی شعبوں کے رضاکار بھی شامل تھے۔ ان کی قیادت پیشہ ور معالجین کررہے تھے۔ دونوں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے فرنٹ لائن ورکرز کی خدمات حاصل کی گئیں۔شہریوں کو بہتر بلدیاتی سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔

اسی طرح ویت نام نے بھی کورونا وائرس سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کی۔ وسطِ اپریل کے بعد ویت نام میں صرف وہی متاثرین دیکھنے کو ملے ہیں، جو بیرونی ممالک سے لوٹے تھے اور جنہیں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا۔ تاہم کچھ وقت سے چند مقامی متاثرین بھی پائے گئے ہیں۔ ویت نام میں بھی اس وبا سے نمٹنے کےلئے سماجی سطح پر اقدامات کئے گئے۔ پہلے وزیر اعظم نے تمام معاملات پر طبی شعبے کی ترجیح دینے کا اعلان کیا اور اسکے بعد نیشنل ریسپانس پلان متعارف کیا گیا اور وبا کے تدارک کےلئے نیشنل سٹیرنگ کمیٹی کو متحرک کیا گیا۔ لوگوں کو حکومتی پیغامات کے ذریعے کورونا وائرس کے ساتھ جنگ لڑنے کےلئے تیار کیا گیا۔ مختلف حکومتی سطحوں پر تال میل قائم کیا گیا اور اقدامات شروع کئے گئے۔ وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی میں ملک کی فوج، پبلک سیکورٹی سروسز اور گراس روٹ سطح کی تنظیموں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وبا کو قابو کرنے کےلئے سخت ترین اقدامات رفتہ رفتہ لاگو کئے گئے۔ ان اقدامات میں ائرپورٹس پر ہیلتھ سکریننگ، جسمانی دوریاں بنانے، غیر ملکیوں کے سفر پر پابندی، بیرونی ممالک سے آنے والوں کو چودہ دن تک قرنطینہ میں رکھنے، سکولوں کو بند رکھنے، عوامی تقریبات منسوخ کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے لوگوں کو ماسک پہننے کی ہدایات آنے سے پہلے ہی ویت نام میں حکومت نے عوامی مقامات پر ماسک پہننے کےلئے لوگوں کو سختی سے عمل کرایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات، دفاتر، رہائشی عمارتوں وغیرہ میں لوگوں کو ہاتھ صاف رکھنے کےلئے سیناٹائزر مہیا رکھے گئے۔ ملک بھر میں غیر اہم سروسز کو بند کردیا گیا اور نقل و حرکت پر سخت پابندی لگادی گئی۔ یہاں پرائمری ہیلتھ کی سطحوں پر ہی وبا کو قابو کرنے کےلئے اقدامات کئے گئے۔

زیادہ اخراجات کی عام ٹیسٹنگ کا عمل صرف امیر ممالک میں انجام دیا گیا۔ ویت نام میں صرف اُن مشتبہ متاثرین کی ٹیسٹنگ پر توجہ دی گئی، جو ممکنہ طور پر زیادہ خطرات کے حامل تھے۔ مشتبہ متاثرین کی ٹیسٹنگ کے عمل میں سرعت لائی گئی۔ چونکہ ویت نام کو پہلے ہی سارس وبا سے تجربہ حاصل ہوا تھا، اس لئے اس نے اس تجربے کو استعمال کرتے ہوئے مشتبہ متاثرین کو فوراً قرنطینہ میں بھیجا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں ٹیسٹنگ کا عمل تیز کردیا گیا۔ یہاں تک کہ جہاں ایک متاثرہ شخص پایا گیا، وہاں اسکے ساتھ متوقع طور رابطے میں رہے ایک ہزار لوگوں کا ٹیسٹ کیا گیا۔ یہ شرح دُنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی کہیں کسی متاثرہ شخص کو پایا جاتا تھا، اسے فوراً حکومتی قرنطینہ مرکز میں پہنچا دیا گیا۔ یہ مراکز یونیورسٹیوں کے ہوسلٹوں یا فوجی بیرکس میں قائم کئے گئے تھے۔ ان متاثرین کے ساتھ رابطے میں رہے لوگوں کو بھی علاحدہ رکھا جاتا تھا، خواہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی کیوں نہ ہوں، جن میں وائرس سے متاثرہ ہونے کی علامات نہ ہوں۔ لیکن اس کے باوجود ان سب کو علاحدہ رکھا جاتا تھا۔ جہاں متاثرین پائے جاتے تھے، وہاں کی آبادیوں کو فوراً الگ تھلگ کردیا جاتا تھا اور ان علاقوں میں ٹیسٹنگ کا عمل تیز کیا جاتا تھا، تاکہ وائرس پھیل نہ پائے۔ تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا۔ ان لوگوں کو اسپتالوں یا حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا یا پھر ان کے گھروں کے اندر تنہائی میں رکھا گیا۔ حکومت نے وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی ابتدائی مرحلے پر ہی لوگوں کو اس کے بارے میں مکمل جانکاری فراہم کی اور اُنہیں شفافیت کے ساتھ سٹریٹجی کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ میڈیا، سرکاری ویب سائٹس اور زمینی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں وغیرہ کی وساطت سے وبا کی علامات اور اس سے نمٹنے کے اقدامات کے بارے میں لوگوں کو جانکاری بہم پہنچائی گئی۔ اسپتالوں، دفاتر، رہائشی عمارتوں اور بازاروں تک جانکاری پھیلادی گئی۔ اس ضمن میں موبائل فونز کے ذریعے پیغامات بھیج دیئے گئے۔ تال میل کے ساتھ چلائی گئی اس مہم کے نتیجے میں عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا اور انہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں اپنا تعاون دیا۔ ہر شہری نے ان اقدامات کے حوالے سے اپنا تعاون فراہم کرنا اپنا فرض سمجھا۔ لوگوں نے بخوشی ماسک پہننے اور ضرورت پڑنے پر قرنطینہ میں جانے پر رضامندی ظاہر کی۔

ہمارے پڑوس میں واقع ایک چھوٹا جزیرہ نما ملک، یعنی سری لنکا نے بھی وبا سے کامیابی کے ساتھ لڑنے کا مظاہرہ کیا۔ سری لنکا کا ہیلتھ کیئر نظام کا معیار اس خطے میں سب سے اوپر ہے۔ اس ملک میں اسپتالوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ میڈیکل سٹاف ہے اور حکومت کے پاس متحرک پبلک ہیلتھ سٹاف ہے۔ لیکن اس پیمانے کی وبا کو قابو کرنے کےلئے سخت اقدامات کی ضرورت تھی۔ اس لئے سری لنکا میں فوج نے اپنی خدمات بہم پہنچائیں۔ سری لنکا کی فوج نے قرنطینہ مراکز کا انتظام کرنے سے لیکر متاثرین کی نشاندہی میں مدد دی جبکہ دوسری جانب پولیس نے سختی سے کرفیو نافذ کیا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ حکومت نے بھی کئی سخت اقدامات کئے جن میں سفری پابندیاں عائد کرنا اور بازاروں و ٹرانسپورٹ کے مراکز کو روازنہ بنیادوں پر ادویات کا چھڑکاو کرنا وغیر شامل تھا۔ اس ملک میں وبا کو قابو کرنے کا سہرا سب سے پہلے فوج اور پولیس کو جاتا ہے۔

بھارت کی مختلف ریاستیں سری لنکا کے طریقہ کار سے دو سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ ان میں پہلا سبق بیماری پر نظر رکھنے کےلئے ایک موثر نظام قائم کرنا ہوسکتا ہے۔ در اصل ماضی میں کئی بیماریوں کا سامنا کرتے ہوئے سری لنکا نے بیماریوں پر نظر رکھنے کا ایک موثر نظام قائم کیا ہے۔ سری لنکا اس ضمن میں پہلے ہی کافی سرمایہ کاری کی تھی۔ کووِڈ میں اس کا یہ نظام بہت ہی سود مند ثابت ہوا۔ دوسرا یہ کہ سری لنکا نے اپنے بنیادی ہیلتھ نیٹ ورک پر انحصار کیا۔ وبا کے دوران پبلک ہیلتھ کلنکس بند تھے اور حکومت نے از خود ادویات اور دیگر سہولیات مریضوں کے گھروں تک پہنچادیں۔ اس ضمن میں ایک ہاٹ لائن قائم کی گئی تھی، جس کے ذریعے وہ مریض جو کووِڈ میں مبتلا نہیں تھے، اپنا علاج و معالجہ کرانے کےلئے بھی معالجین سے رابطہ کر پاتے تھے۔

جس طرح فٹ بال کے کھیل میں کئی کھلاڑی شامل ہوتے ہیں اور ان میں ہر کوئی گول کرنے اور ٹورنا منٹ جیتنے میں اپنا تعاون دیتا ہے، بالکل اسی طرح طبی شعبے سے جڑے لوگ صحت عامہ کے مسائل کو حل کرنے سے متعلق انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر اپنا تعاون دیں تو مشکلات پر قابو پانا آسان ہو سکتا ہے۔ کووِڈ 19 کے حوالے سے بھی مختلف سطحوں پر تال میل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر مشکلات کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکے۔ جب ٹیم زیادہ تال میل کے ساتھ کام کرے تو اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاو کو روکنے میں مدد ملے گی۔ بھارت کو اسی طرح کے نظام کو اپنانے اور اسے موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

(مصنف پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا میں ایک سینئر سائنٹسٹ ہیں۔ مضمون میں ظاہر کی گئیں آرا اُن کی نجی ہیں)

کووِڈ 19 کی شدت نے ہر ملک کی طبی صلاحیت کو چیلنج کیا ہے۔ ہر ملک میں طبی خدمات تک رسائی کی مانگ میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ بیشتر ممالک نے کورونا وائرس کو قابو کرنے کے لئے اپنے ملکی سطحوں پر اقدامات کئے ہیں۔ جن میں قومی اور بین الاقوامی سفر اور آمد و رفت کو روکنے، تعلیمی اداروں کو بند رکھنے، عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے، مشتبہ متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے اور لوگوں کو ہاتھ دھونے اور ماسک پہننے کی تلقین کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ہر ملک کووِڈ 19 کے خطرے سے نمٹنے کے لئے مختلف مواقع پر کئی دیگر اقدامات بھی کرچکا ہے یا کررہا ہے۔ سماجی اور معاشی قربانیوں کے عوض کئے گئے ان اقدامات کے نتیجے میں متاثرین کی تعداد میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

چونکہ مختلف ملکوں کے پاس متاثرین کا پتہ لگانے کے اپنے الگ الگ طریقے ہیں اور اپنی اپنی طرز کی طبی سہولیات اور ٹیسٹنگ کے مختلف پیمانے ہیں، اس لئے اس وبا کے حوالے سے ان ممالک کا تقابلی جائزہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس طرح سے نتائج اخذ کرنا گمراہ کن ہوسکتا ہے۔

وبا کو پھیلنے سے روکنے اور انسانی زندگیوں کو بچانے کے لئے فوری اور دُور رس اقدامات کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے چھ سٹریٹجیک رہنما اقدامات بتائے ہیں۔ ان میں ایک، طبی شعبے سے جڑی افرادی قوت کو وسعت دینے، اُن کی تربیت کرنا اور انہیں تعینات کرنا ہے۔ دوسرا سماج میں مشتبہ متاثرین کا پتہ لگانے کے لئے نظام نافذ کرنا۔ تیسرا، ٹیسٹنگ کی صلاحیت اور تعداد بڑھانا۔ چوتھا، مریضوں کا علاج و معالجہ کرنے والوں کو درکار طبی آلات وغیرہ بہم پہنچانا۔ پانچواں، متاثرین اور ان کے ساتھ رابطے میں رہے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھنے کا بہتر منصوبہ۔ چھٹا، اموات کو روکنے کے لئے ضروری طبی سہولیات میسر رکھنا، جیسے رہنما اقدامات شامل ہیں۔

اگرچہ جنوبی ایشیاء اور جنوبی مشرقی ایشیائی خطے میں موجود کئی ممالک نے کووِڈ 19 کو قابو کرنے اور اس کے پھیلاو میں کمی لانے میں مقابلتاً کامیابی حاصل کرلی ہے تاہم بھارت کے تناظر میں ان ممالک میں شامل چند ایک سے ہی ہم سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اس خطے میں عالمی ادارہ صحت کے رہنما قوائد کو عملانے والے تین ممالک سے ہی بھارت کو کووِڈ 19 سے نمٹنے اور اس کے لئے تیاری کرنے کا سبق حاصل ہوسکتا ہے۔

دیہات میں وبا کو قابو کرنے اور اسے روکنے کی تیاری کرنے کا بہترین سبق ہمیں سنگاپور سے ملتا ہے۔ سنگا پور ان ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے پہلے یعنی فروری کے آغاز میں ہی کووِڈ 19 کے کیسز نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یہاں سب سے زیادہ متاثرین کی تعداد مئی اور جون کے مہینوں میں دیکھنے کو ملی۔ یہ سطور لکھے جانے کے وقت سنگاپورہ میں کووِڈ متاثرین کی تعداد 55,580 تھی۔ جبکہ 51,049 متاثرین صحت یاب ہوچکے تھے۔ اب تک ہونے والی کل اموات 27 تھیں۔ دراصل سنگاپور میں حکومت کو کئی اقدامات کی وجہ سے کووِڈ 19 کو قابو کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سنگاپور نے سارس وبا کے تجرنے کی روشنی میں کووِڈ سے نمٹتے ہوئے اقدامات کئے۔ حکومتی ایجنسیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تال میل بنائے رکھا۔ منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ وبا سے نمٹنے کےلئے وافر مقدار میں سرمایہ استعمال کیا۔ ہیلتھ کیئر انفراسٹکچر کو وسعت دی گئی۔اس کے علاوہ یہاں مختلف حکومتی ایجنسیوں کے درمیان تال میل کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک جانب وزارت صحت کی ٹیم متاثرین کی نشاندہی کرتی تھیں اور دوسری جانب پولیس فورس لوگوں کو جسمانی دوریاں بنائے رکھنے، ہاتھ دھونے اور ماسک استعمال کرنے جیسے اقدامات کرواتی رہی۔ چونکہ ہر شہری کی جانچ کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی بھی جائے تو لیبارٹریز پر زبردست دباو بڑھ جائے گا۔ اس لئے ایک بہتر راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ سب سے زیادہ خطرات کے حامل لوگوں کی نشاندہی کی جائے اور ان کی جانچ کی جائے۔ سنگاپور نے یہ کام ملک بھر میں موجود ایک ہزار سرکاری اور غیرسرکاری ہیلتھ کلنکوں کے ذریعے کیا۔ اس کے نتیجے میں متعلقہ طبی ورکز کو اضافی تجربہ بھی حاصل ہوا اور انہیں وبا سے نمٹنے کی تیاری کرنے کی تربیت بھی حاصل ہوئی۔

بھارت کی طرح سنگاپور میں بھی باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے کووِڈ پھیلا۔ کیونکہ باہر سے آنے والے ان لوگوں کو الگ نہیں رکھا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سنگاپور نے اس کے پھیلاو پر قابو پانے کےلئے وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ اور مشتبہ متاثرین کو الگ رکھنے اور متاثرین کے ساتھ رابطے میں رہے لوگوں کو آئی سولیشن میں رکھنے جیسے اقدامات کئے، جو نتیجہ خیز ثابت ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی سطح پر لوگوں کو جانکاری فراہم کرنے کا عمل بھی بروقت، شفاف اور تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ لوگوں اور شہری سماج کے لیڈروں کے درمیان اس مسئلے کے حوالے مسلسل رابطہ قائم رکھا گیا۔ حکومت لوگوں کو وہاٹس اپ اور دیگر ذرائع سے قومی سطح پر بروقت اور تسلسل کے ساتھ جانکاری دیتی رہی۔ سنگاپور میں کورونا وائرس کو قابو کرنے کے حوالے سے سب سے اہم کردیا ہیلتھ ورک فورس نے کیا۔ وبا کے دوران ملک میں افرادی قوت متحرک رہی۔ ان میں غیر طبی شعبوں کے رضاکار بھی شامل تھے۔ ان کی قیادت پیشہ ور معالجین کررہے تھے۔ دونوں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے فرنٹ لائن ورکرز کی خدمات حاصل کی گئیں۔شہریوں کو بہتر بلدیاتی سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔

اسی طرح ویت نام نے بھی کورونا وائرس سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کی۔ وسطِ اپریل کے بعد ویت نام میں صرف وہی متاثرین دیکھنے کو ملے ہیں، جو بیرونی ممالک سے لوٹے تھے اور جنہیں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا۔ تاہم کچھ وقت سے چند مقامی متاثرین بھی پائے گئے ہیں۔ ویت نام میں بھی اس وبا سے نمٹنے کےلئے سماجی سطح پر اقدامات کئے گئے۔ پہلے وزیر اعظم نے تمام معاملات پر طبی شعبے کی ترجیح دینے کا اعلان کیا اور اسکے بعد نیشنل ریسپانس پلان متعارف کیا گیا اور وبا کے تدارک کےلئے نیشنل سٹیرنگ کمیٹی کو متحرک کیا گیا۔ لوگوں کو حکومتی پیغامات کے ذریعے کورونا وائرس کے ساتھ جنگ لڑنے کےلئے تیار کیا گیا۔ مختلف حکومتی سطحوں پر تال میل قائم کیا گیا اور اقدامات شروع کئے گئے۔ وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی میں ملک کی فوج، پبلک سیکورٹی سروسز اور گراس روٹ سطح کی تنظیموں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وبا کو قابو کرنے کےلئے سخت ترین اقدامات رفتہ رفتہ لاگو کئے گئے۔ ان اقدامات میں ائرپورٹس پر ہیلتھ سکریننگ، جسمانی دوریاں بنانے، غیر ملکیوں کے سفر پر پابندی، بیرونی ممالک سے آنے والوں کو چودہ دن تک قرنطینہ میں رکھنے، سکولوں کو بند رکھنے، عوامی تقریبات منسوخ کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے لوگوں کو ماسک پہننے کی ہدایات آنے سے پہلے ہی ویت نام میں حکومت نے عوامی مقامات پر ماسک پہننے کےلئے لوگوں کو سختی سے عمل کرایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات، دفاتر، رہائشی عمارتوں وغیرہ میں لوگوں کو ہاتھ صاف رکھنے کےلئے سیناٹائزر مہیا رکھے گئے۔ ملک بھر میں غیر اہم سروسز کو بند کردیا گیا اور نقل و حرکت پر سخت پابندی لگادی گئی۔ یہاں پرائمری ہیلتھ کی سطحوں پر ہی وبا کو قابو کرنے کےلئے اقدامات کئے گئے۔

زیادہ اخراجات کی عام ٹیسٹنگ کا عمل صرف امیر ممالک میں انجام دیا گیا۔ ویت نام میں صرف اُن مشتبہ متاثرین کی ٹیسٹنگ پر توجہ دی گئی، جو ممکنہ طور پر زیادہ خطرات کے حامل تھے۔ مشتبہ متاثرین کی ٹیسٹنگ کے عمل میں سرعت لائی گئی۔ چونکہ ویت نام کو پہلے ہی سارس وبا سے تجربہ حاصل ہوا تھا، اس لئے اس نے اس تجربے کو استعمال کرتے ہوئے مشتبہ متاثرین کو فوراً قرنطینہ میں بھیجا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں ٹیسٹنگ کا عمل تیز کردیا گیا۔ یہاں تک کہ جہاں ایک متاثرہ شخص پایا گیا، وہاں اسکے ساتھ متوقع طور رابطے میں رہے ایک ہزار لوگوں کا ٹیسٹ کیا گیا۔ یہ شرح دُنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی کہیں کسی متاثرہ شخص کو پایا جاتا تھا، اسے فوراً حکومتی قرنطینہ مرکز میں پہنچا دیا گیا۔ یہ مراکز یونیورسٹیوں کے ہوسلٹوں یا فوجی بیرکس میں قائم کئے گئے تھے۔ ان متاثرین کے ساتھ رابطے میں رہے لوگوں کو بھی علاحدہ رکھا جاتا تھا، خواہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی کیوں نہ ہوں، جن میں وائرس سے متاثرہ ہونے کی علامات نہ ہوں۔ لیکن اس کے باوجود ان سب کو علاحدہ رکھا جاتا تھا۔ جہاں متاثرین پائے جاتے تھے، وہاں کی آبادیوں کو فوراً الگ تھلگ کردیا جاتا تھا اور ان علاقوں میں ٹیسٹنگ کا عمل تیز کیا جاتا تھا، تاکہ وائرس پھیل نہ پائے۔ تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا۔ ان لوگوں کو اسپتالوں یا حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا یا پھر ان کے گھروں کے اندر تنہائی میں رکھا گیا۔ حکومت نے وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی ابتدائی مرحلے پر ہی لوگوں کو اس کے بارے میں مکمل جانکاری فراہم کی اور اُنہیں شفافیت کے ساتھ سٹریٹجی کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ میڈیا، سرکاری ویب سائٹس اور زمینی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں وغیرہ کی وساطت سے وبا کی علامات اور اس سے نمٹنے کے اقدامات کے بارے میں لوگوں کو جانکاری بہم پہنچائی گئی۔ اسپتالوں، دفاتر، رہائشی عمارتوں اور بازاروں تک جانکاری پھیلادی گئی۔ اس ضمن میں موبائل فونز کے ذریعے پیغامات بھیج دیئے گئے۔ تال میل کے ساتھ چلائی گئی اس مہم کے نتیجے میں عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا اور انہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں اپنا تعاون دیا۔ ہر شہری نے ان اقدامات کے حوالے سے اپنا تعاون فراہم کرنا اپنا فرض سمجھا۔ لوگوں نے بخوشی ماسک پہننے اور ضرورت پڑنے پر قرنطینہ میں جانے پر رضامندی ظاہر کی۔

ہمارے پڑوس میں واقع ایک چھوٹا جزیرہ نما ملک، یعنی سری لنکا نے بھی وبا سے کامیابی کے ساتھ لڑنے کا مظاہرہ کیا۔ سری لنکا کا ہیلتھ کیئر نظام کا معیار اس خطے میں سب سے اوپر ہے۔ اس ملک میں اسپتالوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ میڈیکل سٹاف ہے اور حکومت کے پاس متحرک پبلک ہیلتھ سٹاف ہے۔ لیکن اس پیمانے کی وبا کو قابو کرنے کےلئے سخت اقدامات کی ضرورت تھی۔ اس لئے سری لنکا میں فوج نے اپنی خدمات بہم پہنچائیں۔ سری لنکا کی فوج نے قرنطینہ مراکز کا انتظام کرنے سے لیکر متاثرین کی نشاندہی میں مدد دی جبکہ دوسری جانب پولیس نے سختی سے کرفیو نافذ کیا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ حکومت نے بھی کئی سخت اقدامات کئے جن میں سفری پابندیاں عائد کرنا اور بازاروں و ٹرانسپورٹ کے مراکز کو روازنہ بنیادوں پر ادویات کا چھڑکاو کرنا وغیر شامل تھا۔ اس ملک میں وبا کو قابو کرنے کا سہرا سب سے پہلے فوج اور پولیس کو جاتا ہے۔

بھارت کی مختلف ریاستیں سری لنکا کے طریقہ کار سے دو سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ ان میں پہلا سبق بیماری پر نظر رکھنے کےلئے ایک موثر نظام قائم کرنا ہوسکتا ہے۔ در اصل ماضی میں کئی بیماریوں کا سامنا کرتے ہوئے سری لنکا نے بیماریوں پر نظر رکھنے کا ایک موثر نظام قائم کیا ہے۔ سری لنکا اس ضمن میں پہلے ہی کافی سرمایہ کاری کی تھی۔ کووِڈ میں اس کا یہ نظام بہت ہی سود مند ثابت ہوا۔ دوسرا یہ کہ سری لنکا نے اپنے بنیادی ہیلتھ نیٹ ورک پر انحصار کیا۔ وبا کے دوران پبلک ہیلتھ کلنکس بند تھے اور حکومت نے از خود ادویات اور دیگر سہولیات مریضوں کے گھروں تک پہنچادیں۔ اس ضمن میں ایک ہاٹ لائن قائم کی گئی تھی، جس کے ذریعے وہ مریض جو کووِڈ میں مبتلا نہیں تھے، اپنا علاج و معالجہ کرانے کےلئے بھی معالجین سے رابطہ کر پاتے تھے۔

جس طرح فٹ بال کے کھیل میں کئی کھلاڑی شامل ہوتے ہیں اور ان میں ہر کوئی گول کرنے اور ٹورنا منٹ جیتنے میں اپنا تعاون دیتا ہے، بالکل اسی طرح طبی شعبے سے جڑے لوگ صحت عامہ کے مسائل کو حل کرنے سے متعلق انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر اپنا تعاون دیں تو مشکلات پر قابو پانا آسان ہو سکتا ہے۔ کووِڈ 19 کے حوالے سے بھی مختلف سطحوں پر تال میل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر مشکلات کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکے۔ جب ٹیم زیادہ تال میل کے ساتھ کام کرے تو اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاو کو روکنے میں مدد ملے گی۔ بھارت کو اسی طرح کے نظام کو اپنانے اور اسے موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

(مصنف پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا میں ایک سینئر سائنٹسٹ ہیں۔ مضمون میں ظاہر کی گئیں آرا اُن کی نجی ہیں)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.