جمہوریہ چین مختلف شعبوں میں اپنی پالیسیوں پر زبردست تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ہانگ کانگ ، تبت اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ، بحیرہ جنوبی چین میں توسیع پسندانہ عزائم ، بڑے ممالک کے ساتھ تجارتی معاملات ، کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق معلومات کو صحیح طریقے پر سامنے نہ رکھنا ، کافی چرچے میں رہنے والا بارڈر روڈ انیشی ایٹو(بی آر آئی) ، بھارتی سرحدوں پر مداخلت کی کوششیں ، حال ہی میں نیپال کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور آخر میں قرض میں پھنسانے کی سفارتکاری (ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی) نے چین کو اقوامِ عالم کی اکثریت سے تنہا کردیا ہے۔
’’ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی‘‘ کا جملہ نامور جیو اسٹریٹجسٹ اور مصنف برہما چیلانی نے 2010 کی دہائی کے اوائل میں، افریقی ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے قرضہ دینے کی چینی پالیسیوں کو بیان کرنے کیلئے تخلیق کیا تھا لیکن اب اسے دنیا بھر میں چینی قرضوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔اسکا مطلب چین کا وہ انداز اور شرائط ہیں کہ جسکے تحت چین اپنے مفاد کیلئے وصول کُنندہ ممالک میں اہم حقوق حاصل کرکے رفتہ رفتہ ان ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کرتا ہے۔
یہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟ عمومی طور چین قلیم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک ’’لو انکم ڈیولوپنگ کنٹریز‘‘ (ایل آئی ڈی سی) ،جو منصوبوں پر کام کرنے،رقومات کی واپسی اور شفافیت وغیرہ سے متعلق بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط کی وجہ سے ان اداروں سے قرضہ نہیں لے پاتے ہیں اور اپنے ترقیاتی منصوبوں کیلئے کہیں سے بھی قرضہ حاصل کرنے کیلئے بیتاب ہوتے ہیں، ان کو ادائیگی کیلئے تیار بہ تیار قرضوں کی پیشکش کرتا ہے۔ان قلیل آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں سے لہٰذا کئی، رقومات کے حصول کیلئے غیر ملکی کمپنیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔اس طریقے سے چینی کمپنیاں مختلف ممالک میں داخل ہوجاتی ہیںمینوفیکچرنگ و ایکسپورٹ پر مبنی معیشت بینک اور نجی قرض دہندگان مذکورہ ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے بولی لگانے والی کمپنیوں کو آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک وغیرہ جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے3 سے 4 فیصد سود کے مقابلے میں بعض اوقات 6 فیصد تک کے ہوشربا شرحِ سود پر قرضہ دیتے ہیں اور پھر اصل گھناونا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔قرض دہندہ چینی کمپنی ،بنک یا نجی قرض دہندہ،جو بھی ہو، رہن (کولیٹرلز) کا مطالبہ کرتا ہے جو مختلف ممالک کیلئے الگ الگ اور زمین،کان کنی کی اجازت،ہائیڈروکاربنز یا تجارتی ترجیحات وغیرہ کی شکل میں ہو سکتی ہیں۔رقومات لے کر آنے والی چینی کمپنی منصوبے کیلئے غیر معمولی طور زیادہ لاگت بتاتی ہے لیکن چونکہ اس نے وصول کُنندہ ملک کی شدید ضرورت کے مطابق رقومات لائی ہوتی ہیں اور عام طور پر یہ کمپنی مقامی رہنماؤں کو رشوت دیتی ہے،اسے کھلے عام بولی لگانے کے شفاف طریقہ کے بغیر ہی ٹھیکہ مل جاتا ہے۔
قرض دہندگی کے ساتھ نتھی دیگر اہم شرائط کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ ٹھیکہ چینی کمپنی کو ہی دیا جائے گا،چینی سازوسامان ہی استعمال ہوگا،پروجیکٹ منیجمنٹ بھی چینی ہوگی اور بعض معاملات میں چینی مزدوروں کو ہی مذکورہ منصوبے کیلئے کام پر لگایا جائے گا۔اس طرح ترقیاتی منصوبے پر آنے والی لاگت،جو پہلے ہی غیر معمولی طور بہت زیادہ ہوتی ہے، اس کا بڑا حصہ واپس ٹھیکہ دار ہی کے پاس چلا جاتا ہے۔اگر قرض وصول کُنندہ ملک قرض یا اسکی قسط وقت پر ادا کرنے میں ناکام ہوجائے تو رہن کو ضبط کر لیا جاتا ہے۔یہ سارا عمل ٹھیٹھ بھارتی دیہات کے ساہو کاروں کے جیسا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین عام طور پر اس طرح کے مشکوک لین دین میں ملوث نہیں ہے تاہم ، ٹھیکوں کا مبہم ہونا ،منصوبوں کی عمل آوری کی لاگت میں متواتر اضافہ ہوتے رہنا ، ٹھیکیداروں کے ذریعہ منصوبوں کو وسط میں چھوڑ دینا اور رہن کو ضبط کرنا – سب چین کے درپردہ مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوئی ایک تحقیق کے مطابق چین نے ابھی تک 152ممالک کو 1.5 ٹرلین ڈالر (تقریباََ بھارت کا نصف جی ڈی پی) کا قرضہ دیا ہے لیکن کیل انسٹیچیوٹ آف ورلڈ اکانومی کے مطابق اگر ہم ترقی یافتہ ممالک سے چین کے خریدے ہوئے ’’پورٹ فولیو ڈیٹ‘‘ اور مختلف شریکوں کو دئے جاچکے ’’ٹریڈ کریڈٹ‘‘ کو شامل کریں تو چین کا دیا ہوا مجموعی قرضہ 5 ٹرلین ڈالر (عالمی معیشت کا 6 فیصد) تک پہنچتا ہے!
یہ قرضہ جات یا تو بڑے چرچے میں رہے چینی بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو) کا حصہ ہیں یا پھر انفرادی سطح پر دئے گئے قرضے ہیں۔قرضوں کے اس جال (ڈیٹ ٹریپ) کی حد تو اس بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ فی الوقت بارہ ممالک ایسے ہیں جہاں کے جی ڈی پی سے 20 فیصد زیادہ ان ممالک پر چین کا قرضہ ہے۔یہ ممالک جبوتی ، ٹونگا ، جمہوریہ کانگو ، کرغزستان ، مالدیپ ، کمبوڈیا ، نائجر ، لاؤس ، زیمبیا ، ساموعہ ، منگولیا اور وانواتو ہیں۔جبوتی نے دباؤ میں آکر چین کو اپنے یہاں بیرون ملک چین کا پہلا فوجی اڈہ بنانے کی اجازت دی جبکہ سری لنکا کو، تقریبا ایک ارب امریکی ڈالر کے قرضہ کی قسط ادا نہ کر پانے پر،چینی قرضے سے بنائی جاچکی ہامبنٹوٹہ بندرگاہ کو 99 سال کیلئے چین کو پٹے پر دینا پڑا۔تیل سے مالا مال انگولا ،جو 43 ارب امریکی ڈالر کا چینی قرضہ واپس لوٹا رہا ہے،میں راجدھانی لوانڈا کے ساتھ ہی چین نے ایک پورا نیا شہر تعمیر کیا لیکن وہاں ایک شخص بھی نہیں رہتا ہے!۔
تنزانیہ،ملیشیاٗ اور یہاں تک کہ پاکستان کو قرضہ واپس کرنے میں ناکامی کے خوف سے چند منصوبوں کو بیچ میں ہی روکنا پڑا۔ملیشیاٗ میں ایک پروجیکٹ کیلئے 90 فیصد لاگت قرضہ میں سے ادا کی گئی تھی لیکن 15 فیصد کام بھی نہیں ہوسکا تھا جس سے مجبور ہوکر مہاتیر محمد کی سرکار کو اس پروجیکٹ کو منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
پاکستان میں سی پیک (سی پی ای سی) پروجیکٹس کی لاگت کا اصل تخمینہ 36ارب امریکی ڈالر کا تھا جو بڑھتے بڑھتے 64 ارب ہوگیا ہے اور اسکے 80 ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچنے کا اندازہ ہے۔الزام ہے کہ چینی کمپنیوں کی جانب سے ٹھیکے ہتھیا لینے کیلئے اڈھائی ارب امریکی ڈالر کی رشوت دی گئی ہے۔اگر ہمارے پڑوسی نیپال نے قرضہ حاصل کرنے کیلئے چین کے ساتھ عشق لڑانا بند نہیں کیا،اس کا قرضہ جلد ہی 8ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو اسکے لئے یقیناََ ایک جال ثابت ہوسکتا ہے جسکے اشارے پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔کئی قرض وصول کُنندگان نے اس جال میں پھنسنے کا احساس کرنا شروع کیا ہے اور وہ دیگر جگہوں پر قرضہ حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
چین کے اس ٹیڑھے منصوبے کے سائے میں بھارت کہاں پر کھڑا ہے؟ ہم اپنی گرانٹ، لائن آف کریڈٹ اور امداد وغیرہ کے ذریعہ بہت سارے ترقی پذیر ممالک موجود ہیں۔حالانکہ ہم چینی قرضہ کی سطح اور رفتار کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے ہیں لیکن ہمارے تئیں یقیناََ چین کے مقابلے میں کئی زیادہ خیر سگالی موجود ہے۔ گو چین ہی کی طرح بھارتی معیشت کو بھی وبا کی وجہ سے دھچکہ لگا ہے لیکن اگر ہم چین کے خلاف بڑھتے ہوئے عدمِ اطمینان کا فائدہ اٹھا سکیں تو اس بحران کو ایک موقعے میں بدل سکتے ہیں ۔اگر ہم کسی طرح قرض ڈھونڈنے والوں کو آسان قرضہ دے سکیں۔یہ سب ہمیں آگے چل کر بہت فائدہ دے سکتا ہے۔