ETV Bharat / opinion

انتخابی نتائج 2021: بقا، وجود اور تحفظ کی خاطر ووٹ - بقا، وجود اور تحفظ کی خاطر ووٹ

سینیئر صحافی و ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال احمد بٹ کے انتخابی نتائج 2021 پر کیے گئے تجزیہ کے مطابق مغربی بنگال میں اقلیتوں کو اس یقین نے متحد کر دیا کہ بی جے پی کو صرف ممتا بنرجی ہی اقتدار میں آنے سے روک سکتی ہیں، حالانکہ بی جے پی کی شکست کے کئی اور اسباب بھی ہیں۔ کیونکہ مغربی بنگال کے جنوبی جنگل محل ’جہاں 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو جم کر ووٹ حاصل ہوئے تھے‘ میں بھی اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

2021 election results: A vote for survival, existence and protection
انتخابی نتائج 2021: بقا، وجود اور تحفظ کی خاطر ووٹ
author img

By

Published : May 4, 2021, 8:23 AM IST

کیا یہ وہیل چیئر پر بیٹھی ایک خاتون کا کرشمہ ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی پیش قدمی رُک گئی؟ یا پھر بی جے پی کا کارواں اُس بیانیہ کی وجہ سے تہہ و بالا ہوکر رہ گیا، جس میں اقلیتیوں کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اگر زعفرانی پارٹی برسر اقتدار آجاتی ہے تو اُن کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگا؟

دونوں سوالات کا جواب مثبت میں ہے، اقلیتی طبقے نے دیگر سیکولر جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کی مجموعی قوت کو ترنمول کانگریس کی پشت پر مجتمع کردیا۔

اقلیتوں کو اس یقین نے یک جُٹ کر دیا کہ صرف ممتا بینرجی ہی بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک سکتی ہے، حالانکہ بی جے پی کی شکست کے کئی اور اسباب بھی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ہی مغربی بنگال کے جنوبی جنگل محل، ’جہاں 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو بھاری تعداد میں ووٹ حاصل ہوئے تھے‘ میں بھی اسے شکست سے دوچار ہوجانا پڑا۔

ظاہر ہے کہ یہاں خواتین رائے دہندگان، جو مردوں کے مقابلے میں اکثریت میں ہیں، نے اپنے حق رائے دیہی کا استعمال کرتے ہوئے ترنمول کو کامیابی سے ہمکنار کرایا اور بی جے پی کو جنوبی جنگل محل سے نکال باہر کردیا۔ حالانکہ بھاجپا نے یہاں متھوا قبیلے کو لبھانے کی بھرپور کوششیں کی تھیں۔

حقیقت میں یہ بی جے پی کے خلاف اور ممتا کے حق میں عوامی مینڈیٹ کا کھلا مظاہرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2016ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں آج ترنمول کانگریس نے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

بی جے پی کو جو اضافی ووٹ حاصل ہوا ہے، وہ کانگریس، بائیں بازو کی جاعتوں وغیرہ سے کے بدلے اسے حاصل ہوا ہے۔ کیونکہ یہ جماعتیں مکمل طور پر مغربی بنگال کے سیاسی منظرنامے سے باہر ہوکر رہ گئی ہیں۔

کولکتہ، جہاں بی جے پی کو اچھی خاصی سیٹیں ملنے کی توقع ہے، میں اسے نکال باہر کردیا گیا۔ یہاں تک کہ دل بدلنے والوں جس پر بھاجپا نے تکیہ کیا تھا، بھی اس کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوپائے۔

راجیو بینرجی، بھیشالی دالمیا وغیرہ سمیت وہ تمام اراکین اسمبلی، جو ترنمول کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے، الیکشن میں شکست سے دوچار ہوگئے۔

مغربی بنگال میں منحرف اراکین اسمبلی میں سویندھو ادھیکاری واحد فرد ہیں، جو بی جے پی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ انہوں نے موجودہ وزیراعلیٰ کو مشرقی میدنی پور کے نندی گرام حلقہ انتخاب میں شکست دے دی۔

کیرلا کی کہانی کچھ مختلف نہیں ہے، جہاں بی جے پی مکمل طور پر شکست سے دوچار ہوگئی۔ یہاں آنے والے پانچ سال تک اسمبلی میں بی جے پی کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔

شمالی اور وسطی کیرلا میں اقلیتی طبقے نے اپنی وفاداری بدلتے ہوئے ایل ڈی ایف کے حق میں اپنا ووٹ دیا کیونکہ اُنہیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ اگر زعفرانی پارٹی برسراقتدار آجاتی ہے تو اُن کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔

شمالی کیرلا، جو مسلم لیگ کے ووٹروں کا گڑھ ہے، میں اکثر رائے دہندگان نے لیفٹ کے حق میں اپنا ووٹ دیا اور اسی طرح وسطی علاقے جہاں عیسائیوں کی بھاری آبادی ہے، میں رائے دہندگان نے ایل ڈی ایف کے حق میں ووٹ دیا۔

زعفرانی پارٹی نے جنوبی خطے، جو ہندو اکثریتی علاقہ ہے، میں بھی کوئی بہتر کارکردگی نہیں دکھائی کیونکہ یہاں رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے کوئی موثر بیانیہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔

جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایک موثر بیانیہ اور ایجنڈا کے بل پر ڈی ایم کے کو اقتدار کی گدی تک پہنچا دیا۔ حالانکہ اس پر اقربا پروری کے الزاما ت بھی لگے تھے۔ لیکن یہاں نہ صرف کارونندھی (سابق وزیر اعلیٰ) کی سیکنڈ جنریش کے ایم کے سٹالین نے میدان مار لیا، بلکہ تیسری جنریشن سے وابستہ شہزادے نے بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

سٹالین کے بیٹے اُدھیا نندھی سٹالن نے اچھے خاصے ووٹوں کی بدولت چیپاوک حلقہ انتخاب سے اپنی جیت درج کرائی۔ اے آئی اے ڈی ایم کے پاس جئے للیتا کی وجہ سے خواتین کا ووٹ بینک ہوا کرتا تھا لیکن آج ان خواتین رائے دہندگان نے ڈی ایم کے کے حق میں اپنا ووٹ دیا۔

ڈی ایم کے نے نہ صرف یہ کہ اے آئی اے ڈی ایم کے، کے دس سالہ دورِ اقتدار کے بعد حکومت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے بلکہ اس نے یہ بات بھی یقینی بنالی ہے کہ دوسری جنریشن کو آسانی کے ساتھ اقتدار منتقل ہو۔

دائمی شہزادے ایم کے سٹالن پینتالیس سال کی انقلابی سیاست کے بعد بالآخر بادشاہ بن گیا۔ ڈی ایم کے ایک ایسے وقت میں بر سراقتدار میں آگئی ہے، جب بھارت کو کورونا وائرس کی وجہ سے صحت عامہ کے بحران کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈی ایم کے اپنی ترجیحات کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔ اس کا عندیہ اس کے ترجمان مانوسُندرم نے اتوار کو یہ کہہ کر دیا کہ اُن کی پارٹی کو اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی کئی چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ صحت عامہ سے متعلق ایک بحرانی صورتحال ہر طرف موجود ہے۔

مغربی بنگال اور کیرلا کے برعکس آسام میں بی جے پی کے لیے ایک خوشگوار صورتحال ہے، یہاں اقلیتی ووٹ پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔ حقیقت میں یہاں کانگریس کی جانب سے مقامی شناخت کے حوالے سے پیش کردہ بیانیہ نے بی جے پی کی مدد کی اور بی جے پی نے خالصتاً تعمیر و ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کئے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے نعرے کانگریس قیادت والے مہا جُٹ، جس میں بودھولینڈ پیپلز فرنٹ، لیفٹ، اور اے آئی یو ڈی ایف شامل ہیں، کے لیے کوئی فائدہ بخش ثابت نہیں ہوئے۔ شاید اس لیے کہ یہاں بی جے پی کے ہمانتا بسوا شرما ایک پرکشش شخصیت ہیں، جو لوگوں کو اپنی جماعت کی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوگئے۔

بی جے پی نے آسام ایکارڈ کی چھٹی مد کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس میں آسام کے باشندگان کی مقامی شہریت کو تحفظ حاصل ہے، بدرالدین اجمل کو ایک فرقہ پرست قوت کے بطور ظاہر کرنا اور اُنہیں آسام کے مقامی باشندگان کےلیے خطرہ قرار دئے جانے کی وجہ سے ان کے اتحادیوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔

ریاستی کانگریس صدر ریپن بورا کا الیکشن ہارنا کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں نے مہاجُٹ کو ایک ناپسندیدہ اتحاد کے بطور دیکھا ہے۔

اب بی جے پی کے لیے چیلنج یہ ہوگا کہ وہ موجودہ وزیر اعلیٰ اور ہمانتا بسوا کے درمیان توازن کیسے قائم رکھ پائے گی، کیوں کہ ہمانتا ایک طویل عرصے سے آسام کا وزیر اعلیٰ بننے کے متمنی ہیں، کیا بی جے پی آسام میں اے آئی اے ڈی ایم کے کی راہ پر چلے گی، جس نے ای پی ایس، او پی ایس اور ساسیکالا کے درمیان جھگڑا پیدا کیا، یا پھر وہ سونووال اور بسوا کے درمیان پیدا شدہ مسئلے کا کوئی دوسرا حل نکالتی ہے۔

یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ ممتا بینرجی، جو رکن اسمبلی نہیں بن پائی، آنے والے چھ ماہ میں کس طرح سے رکن اسمبلی بنتی ہیں تاکہ وہ اپنے وزیراعلیٰ کے عہدے کو برقرار رکھ پائیں۔

یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ رکن اسمبلی بننے کے لیے وہ کس حلقے کا انتخاب کرتی ہیں، کیا کولکتہ کا کھاردا حلقہ انتخاب ممتا کو رکن اسمبلی بنانے کے لیے انتظار کررہا ہے کیونکہ انتخابی عمل کے دوران کووِڈ کے باعث متعلقہ اُمیدوار کی موت کی وجہ سے یہ سیٹ ابھی خالی ہے۔

کیا یہ وہیل چیئر پر بیٹھی ایک خاتون کا کرشمہ ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی پیش قدمی رُک گئی؟ یا پھر بی جے پی کا کارواں اُس بیانیہ کی وجہ سے تہہ و بالا ہوکر رہ گیا، جس میں اقلیتیوں کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اگر زعفرانی پارٹی برسر اقتدار آجاتی ہے تو اُن کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگا؟

دونوں سوالات کا جواب مثبت میں ہے، اقلیتی طبقے نے دیگر سیکولر جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کی مجموعی قوت کو ترنمول کانگریس کی پشت پر مجتمع کردیا۔

اقلیتوں کو اس یقین نے یک جُٹ کر دیا کہ صرف ممتا بینرجی ہی بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک سکتی ہے، حالانکہ بی جے پی کی شکست کے کئی اور اسباب بھی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ہی مغربی بنگال کے جنوبی جنگل محل، ’جہاں 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو بھاری تعداد میں ووٹ حاصل ہوئے تھے‘ میں بھی اسے شکست سے دوچار ہوجانا پڑا۔

ظاہر ہے کہ یہاں خواتین رائے دہندگان، جو مردوں کے مقابلے میں اکثریت میں ہیں، نے اپنے حق رائے دیہی کا استعمال کرتے ہوئے ترنمول کو کامیابی سے ہمکنار کرایا اور بی جے پی کو جنوبی جنگل محل سے نکال باہر کردیا۔ حالانکہ بھاجپا نے یہاں متھوا قبیلے کو لبھانے کی بھرپور کوششیں کی تھیں۔

حقیقت میں یہ بی جے پی کے خلاف اور ممتا کے حق میں عوامی مینڈیٹ کا کھلا مظاہرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2016ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں آج ترنمول کانگریس نے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

بی جے پی کو جو اضافی ووٹ حاصل ہوا ہے، وہ کانگریس، بائیں بازو کی جاعتوں وغیرہ سے کے بدلے اسے حاصل ہوا ہے۔ کیونکہ یہ جماعتیں مکمل طور پر مغربی بنگال کے سیاسی منظرنامے سے باہر ہوکر رہ گئی ہیں۔

کولکتہ، جہاں بی جے پی کو اچھی خاصی سیٹیں ملنے کی توقع ہے، میں اسے نکال باہر کردیا گیا۔ یہاں تک کہ دل بدلنے والوں جس پر بھاجپا نے تکیہ کیا تھا، بھی اس کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوپائے۔

راجیو بینرجی، بھیشالی دالمیا وغیرہ سمیت وہ تمام اراکین اسمبلی، جو ترنمول کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے، الیکشن میں شکست سے دوچار ہوگئے۔

مغربی بنگال میں منحرف اراکین اسمبلی میں سویندھو ادھیکاری واحد فرد ہیں، جو بی جے پی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ انہوں نے موجودہ وزیراعلیٰ کو مشرقی میدنی پور کے نندی گرام حلقہ انتخاب میں شکست دے دی۔

کیرلا کی کہانی کچھ مختلف نہیں ہے، جہاں بی جے پی مکمل طور پر شکست سے دوچار ہوگئی۔ یہاں آنے والے پانچ سال تک اسمبلی میں بی جے پی کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔

شمالی اور وسطی کیرلا میں اقلیتی طبقے نے اپنی وفاداری بدلتے ہوئے ایل ڈی ایف کے حق میں اپنا ووٹ دیا کیونکہ اُنہیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ اگر زعفرانی پارٹی برسراقتدار آجاتی ہے تو اُن کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔

شمالی کیرلا، جو مسلم لیگ کے ووٹروں کا گڑھ ہے، میں اکثر رائے دہندگان نے لیفٹ کے حق میں اپنا ووٹ دیا اور اسی طرح وسطی علاقے جہاں عیسائیوں کی بھاری آبادی ہے، میں رائے دہندگان نے ایل ڈی ایف کے حق میں ووٹ دیا۔

زعفرانی پارٹی نے جنوبی خطے، جو ہندو اکثریتی علاقہ ہے، میں بھی کوئی بہتر کارکردگی نہیں دکھائی کیونکہ یہاں رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے کوئی موثر بیانیہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔

جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایک موثر بیانیہ اور ایجنڈا کے بل پر ڈی ایم کے کو اقتدار کی گدی تک پہنچا دیا۔ حالانکہ اس پر اقربا پروری کے الزاما ت بھی لگے تھے۔ لیکن یہاں نہ صرف کارونندھی (سابق وزیر اعلیٰ) کی سیکنڈ جنریش کے ایم کے سٹالین نے میدان مار لیا، بلکہ تیسری جنریشن سے وابستہ شہزادے نے بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

سٹالین کے بیٹے اُدھیا نندھی سٹالن نے اچھے خاصے ووٹوں کی بدولت چیپاوک حلقہ انتخاب سے اپنی جیت درج کرائی۔ اے آئی اے ڈی ایم کے پاس جئے للیتا کی وجہ سے خواتین کا ووٹ بینک ہوا کرتا تھا لیکن آج ان خواتین رائے دہندگان نے ڈی ایم کے کے حق میں اپنا ووٹ دیا۔

ڈی ایم کے نے نہ صرف یہ کہ اے آئی اے ڈی ایم کے، کے دس سالہ دورِ اقتدار کے بعد حکومت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے بلکہ اس نے یہ بات بھی یقینی بنالی ہے کہ دوسری جنریشن کو آسانی کے ساتھ اقتدار منتقل ہو۔

دائمی شہزادے ایم کے سٹالن پینتالیس سال کی انقلابی سیاست کے بعد بالآخر بادشاہ بن گیا۔ ڈی ایم کے ایک ایسے وقت میں بر سراقتدار میں آگئی ہے، جب بھارت کو کورونا وائرس کی وجہ سے صحت عامہ کے بحران کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈی ایم کے اپنی ترجیحات کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔ اس کا عندیہ اس کے ترجمان مانوسُندرم نے اتوار کو یہ کہہ کر دیا کہ اُن کی پارٹی کو اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی کئی چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ صحت عامہ سے متعلق ایک بحرانی صورتحال ہر طرف موجود ہے۔

مغربی بنگال اور کیرلا کے برعکس آسام میں بی جے پی کے لیے ایک خوشگوار صورتحال ہے، یہاں اقلیتی ووٹ پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔ حقیقت میں یہاں کانگریس کی جانب سے مقامی شناخت کے حوالے سے پیش کردہ بیانیہ نے بی جے پی کی مدد کی اور بی جے پی نے خالصتاً تعمیر و ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کئے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے نعرے کانگریس قیادت والے مہا جُٹ، جس میں بودھولینڈ پیپلز فرنٹ، لیفٹ، اور اے آئی یو ڈی ایف شامل ہیں، کے لیے کوئی فائدہ بخش ثابت نہیں ہوئے۔ شاید اس لیے کہ یہاں بی جے پی کے ہمانتا بسوا شرما ایک پرکشش شخصیت ہیں، جو لوگوں کو اپنی جماعت کی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوگئے۔

بی جے پی نے آسام ایکارڈ کی چھٹی مد کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس میں آسام کے باشندگان کی مقامی شہریت کو تحفظ حاصل ہے، بدرالدین اجمل کو ایک فرقہ پرست قوت کے بطور ظاہر کرنا اور اُنہیں آسام کے مقامی باشندگان کےلیے خطرہ قرار دئے جانے کی وجہ سے ان کے اتحادیوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔

ریاستی کانگریس صدر ریپن بورا کا الیکشن ہارنا کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں نے مہاجُٹ کو ایک ناپسندیدہ اتحاد کے بطور دیکھا ہے۔

اب بی جے پی کے لیے چیلنج یہ ہوگا کہ وہ موجودہ وزیر اعلیٰ اور ہمانتا بسوا کے درمیان توازن کیسے قائم رکھ پائے گی، کیوں کہ ہمانتا ایک طویل عرصے سے آسام کا وزیر اعلیٰ بننے کے متمنی ہیں، کیا بی جے پی آسام میں اے آئی اے ڈی ایم کے کی راہ پر چلے گی، جس نے ای پی ایس، او پی ایس اور ساسیکالا کے درمیان جھگڑا پیدا کیا، یا پھر وہ سونووال اور بسوا کے درمیان پیدا شدہ مسئلے کا کوئی دوسرا حل نکالتی ہے۔

یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ ممتا بینرجی، جو رکن اسمبلی نہیں بن پائی، آنے والے چھ ماہ میں کس طرح سے رکن اسمبلی بنتی ہیں تاکہ وہ اپنے وزیراعلیٰ کے عہدے کو برقرار رکھ پائیں۔

یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ رکن اسمبلی بننے کے لیے وہ کس حلقے کا انتخاب کرتی ہیں، کیا کولکتہ کا کھاردا حلقہ انتخاب ممتا کو رکن اسمبلی بنانے کے لیے انتظار کررہا ہے کیونکہ انتخابی عمل کے دوران کووِڈ کے باعث متعلقہ اُمیدوار کی موت کی وجہ سے یہ سیٹ ابھی خالی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.