قیام ِجمہوریت کے 70سال بعداب ہمیں اس بات کا ضرور جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے خواتین اور بچو ں کی مدد کے لئے اُن حقوق سے کس قدر استفادہ حاصل کیا ہے ، جو ہمارے آئین نے خاص ان کے لیے محفوظ کیے ہیں ۔
ہمارے آئین میں بنیادی حقوق سے متعلق باب کے مطابق قانون کی نظر میں سب کو یکساں حقوق اور تحفظ میسر ہیں۔آئین کی رو سے مذہب، نسل ، ذات، جنس اورجائے پیدائش کی بنیاد پر شہریوں میں امتیاز برتنا بھی ممنوع ہے۔
آئین کی دفعہ 15(3) میں کہا گیا ہے، یہ دفعہ ریاست ( حکومت ) کو خواتین اور بچوں سے متعلق خصوصی پراویژن بنانے سے روکتا نہیں ہے۔ یعنی اس سے صاف عندیہ ملتا ہے کہ ہمارا آئین مرتب کرنے والے خواتین کو سیاسی نظام میں شامل کرنے کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے اور انہوں نے بچوں کے تحفظ اور نگہداشت کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے۔لیکن کیا ہم واقعی اُن کے اس نظریے کو مزید بہتر بنا رہے ہیں؟
جمہوری حکومت کے قیام کے بعد ابتدائی برسوں میں خواتین کو یکساں حقوق فراہم کرنے کی مخالفت ہوئی تھی ۔لیکن سال 1950 کے وسط میں ہندو کوڈ پاس ہوجانے کے نتیجے میں صرف کہنے کے لیے ہی صحیح لیکن ایک نئی راہ کھل گئی ۔
اس ضمن میں پیش رفت سست رہی لیکن تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔سال 1961ء میں میٹرنٹی ( زچگی ) بینیفٹ ایکٹ اور جہیز ممانعت ایکٹ معرض وجود آگئے ۔ لیکن محض قوانین بنانے سے سماجی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔
مثال کے طور پر تعذیرات ہند کے سیکشن 304کے مطابق جہیز کے معاملے میں قتل ایک بھیانک جرم ہے۔ لیکن کیا اس قانون کی موجودگی کے باوجود اس طرح کی معاملات رونما ہوجانا بند ہوگئے ہیں؟
جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک میں آئے دن ہر ایک گھنٹہ میں جہیز کو لے کر قتل ہوتا ہے۔
اسی طرح ، گھریلو تشدد سے خواتین کو تحفظ فراہم کرانے والے اور کام کرنے والی خواتین کو جنسی طور سےہراساں کرنے کے خلاف موجود قوانین کیا با اثر ثابت ہورہے ہیں؟یہ قوانین بہت اہم ہیں اور ان سے متعلق اچھی بات یہ ہے کہ ان کی بدولت خواتین با اختیار ہوگئی ہیں اور انہیں آئینی حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔
ڈائریکٹیو پرنسپلز آف سٹیٹ پالیسی (ڈی پی ایس پی ) حکومت کو تمام خواتین اور مردوں کو یکساں حقوق دینے ، انہیں روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنے اور انہیں یکساں کام کے لئے یکساں اجرتیں فراہم کرنے کاپابند بناتی ہے۔
آئین کی رو سے پنچایتوں اور بلدیہ میں خواتین( بشمول شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرایب) کے لئے مخصوص نشستیں فراہم کی جاتی ہیں۔لیکن اس کے باجود ہمیں بار بار اس طرح کے بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ خواتین کی جگہ گھروں میں ہے۔ اس طرح کی باتیں بعض اوقات اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ بھی کرتے ہیں۔
یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مخصوص نشستوں پر اصل میں چند خواتین ہی قابض رہتی ہیں۔ اس لئے محض قوانین کا ہونا ہی کافی نہیں ہے۔خواتین کو با اختیار بنانے سے متعلق آئین کو مرتب کرنے والوں کے نظریے کو عملی شکل دینے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری سوچ میں تبدیلی آئے۔
انسانی حقوق سے متعلق عالمی اعلامیہ کی دفعہ 25میں بچوں کے استحقاق اور انکی نگہداشت اور معاونت کے حقوق تسلیم کئے گئے ہیں۔ اس استحقاق کے پیش نظر ہمارے آئین میں کہا گیا ہے کہ 14سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے کو کام کے لئے ملازم نہیں رکھا جاسکتا ہے اور نہ وہ کسی فیکٹری یا کسی دوکان میں کام کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی اور طرح کے خطرناک کام میں لگایا جاسکتا ہے۔
ڈائریکٹیو پرنسپلز آف سٹیٹ پالیسی (ڈی پی ایس پی ) حکومت کو یہ ہدایت بھی دیتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی کمسن کا استحصال نہ ہو اور ان کی پرورش ایک صحت مند اور آزادانہ ماحول میں ہو ۔ ان کی عزت اور بچپن کو استحصال سے بچایا جائے۔ یہ واقعی بہت اونچے خیالات ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے واقعی بچوں کے ان حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے؟
قومی پالیسیاں بے زبان بچوں ، بالخصوص لڑکیوں کے مفاد میں بنائی جاتی ہیں ۔ جوائنائل جسٹس ایکٹ ان کے تحفظ اور نگہداشت کے لئے بنایا گیا ہے۔اسی طرح 14سال کی عمر تک کے بچوں کی مفت تعلیم کے حق کو بھی قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔تاہم اس معاملے میں بھی زمینی حقائق بہت ہی مایوس کن ہیں۔
کیلاش ستیارتھی کی قابل قدر کوششوں کے باوجود بچہ مزدوری بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ گزشتہ کئی ماہ کے دورا ن ناقص طبی سہولیات کی وجہ سے سینکڑوں نوازئیدوں کی موت کی وجہ سے ہمیں ایک بڑا دھچکہ لگا ہے۔
این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق ہر دن 250 بچے لاپتہ ہوجاتے ہیں۔حال ہی میں کئی افراد کو شیلٹر ہومز میں 30 نوجوان لڑکیوں کو جنسی ہراساں کرنے پر سزا سنائی گئی اور اس طرح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بچوں کو وہ حقوق فراہم نہیں ہورہے ہیں ، جو انہیں ہمارے آئین نے دیئے ہیں۔
این سی آر بی کے مطابق بچوں کی جانب سے کئے جانے والے جرائم میں کمی واقع ہوگئی ہے لیکن بچوں کے خلاف ہورہے جرائم میں سال 2016ء اور سال 2018ء کے درمیان اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
حق تعلیم سے متعلق قانون 9سال پہلے نافذ کیا گیا ہے ۔ اس کے کچھ فائدہ بھی ملے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کس حد تک ملا ہے؟انفراسٹکچر اور تعلیم یافتہ اساتذہ کی کمی کی وجہ سے بچوں کو بہتر تعلیم کا بنیادی حق فراہم نہیں ہوپارہا ہے۔
اس لئے ایک ترقی پسند سماج اور ایک متحرک جمہوریت کی حیثیت سے ہمیں ان سوالا ت کے جواب دینے پڑیں گے کہ ہم نے اصل میں اب تک کیا حاصل کیا ہے؟ اور ہمیں صاف صاف ناکامیاں کیوں دیکھنے کو مل رہی ہیں؟ ہمارے پاس کیا حکمت عملی ہے؟
لیکن سب سے پہلے ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ وقت بدل رہا ہے ۔ خواتین بہت پہلے ہی اپنے حقوق سمجھ چکی ہیں۔ لیکن اب ان حقوق کو عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور آئین ہمیں اس بات کا پابند بناتی ہے کہ ہم ان حقوق کو یکسانیت اور عزت کے ساتھ زمینی سطح پر نافذ کریں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رہنماؤں سمیت کسی کو بھی یہ حقوق دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ہمارے بچے ، جو مجموعی آبادی کا 37فیصد ہیں، جس کے حقوق کو ہم نے گزشتہ 70سال کے دوران یا تو نظر انداز کیا ہے یا پھر انہیں بہت کم اہمیت دی ہے۔
ہمیں ان کے حقوق کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کے نفاذ کے لئے توجہ دینی ہوگی ۔ہمیں خواتین اور بچوں کے فوائد کے لئے مرتب کی گئیں فلاحی اسکیموں کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لئے سوشل آڈٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک غیر جانبدارانہ اور با معنی تجزیہ ہے، جس سے زمینی حقائق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کا تجزیہ ہے ،جس کے نتیجے میں شلٹر ہومز کی حالت زار سامنے آگئی تھی ۔
جمہوریت کے قیام کے 70ویں سال ہمارے پاس کیا منصوبہ ہیں؟ اس کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں ان پائیدار اہداف کو اپنے لئے مقرر کرنا چاہیے ۔جنہیں بھارت سمیت 193ممالک کے لیڈروں نے تسلیم کیا ہوا ہے۔
ہمیں آنے والی دہائی میں خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق یہ اہداف کو متحد ہوکر اور جمہوری طریقے سے حاصل کرنے ہونگے ۔اس کے بعد ہی ہم حقیقی معنوں میں خوشحال ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس کے لئے بہت محنت کرنی ہوگی ۔