واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز خبردار کیا کہ اسرائیل غزہ پر اپنی "اندھا دھند بمباری" کی وجہ سے بین الاقوامی حمایت کھو رہا ہے۔ جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیل اور حماس کی جنگ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے مطالبے سے چند گھنٹے قبل غیر معمولی طور پر سخت زبان میں بات کی۔
- اسرائیل اندھا دھند بمباری سے حمایت کھو رہا ہے: بائیڈن
بائیڈن نے منگل کو فنڈ جمع کرنے کے دوران عطیہ دہندگان سے کہا کہ "اسرائیل کی سلامتی امریکہ پر ٹکی ہوئی ہے، لیکن اس وقت اس کے پاس یورپی یونین ہے، اس کے پاس یورپ ہے، اس کے پاس زیادہ تر دنیا کی حمایت حاصل ہے۔" بائیڈن نے زور دے کر کہا کہ، "اسرائیل اندھا دھند بمباری سے اس حمایت کو کھونا شروع کر رہا ہے،" صدر بائیڈن نے کہا کہ، ان کے خیال میں وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سمجھتے ہیں، لیکن وہ اسرائیلی جنگی کابینہ کے بارے میں اتنا یقین نہیں رکھتے۔ اسرائیلی افواج غزہ بھر میں سزا دینے والے حملے کررہی ہے، فلسطینیوں کو گھروں میں کچل رہی ہے، جب کہ فوج ایک جارحانہ کارروائی کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔، اور حکام کے مطابق یہ جنگ ہفتوں یا مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ بائیڈن نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل کے فیصلوں اور اس کی قدامت پسند حکومت کے اقدامات کا معمول سے زیادہ سخت جائزہ پیش کیا۔
دریں اثنا، بائیڈن کے اعلی قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان، اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے ٹائم ٹیبل کے بارے میں براہ راست مشورہ کرنے کے لیے اس ہفتے اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ صدر نے اپنے انتباہات کی تجدید بھی کی کہ اسرائیل کو اوور ری ایکشن کی وہی غلطیاں نہیں کرنی چاہئیں جو 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکہ نے کی تھیں۔ فنڈ اکٹھا کرنے کے دوران، بائیڈن نے کہا کہ جب انہوں نے نتن یاہو کو بمباری پر بین الاقوامی حمایت کے نقصان سے خبردار کیا ، تو اسرائیلی رہنما نے ذکر کیا ہے کہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی پر " کارپیٹ بم گرائے تھے " اور جاپان پر ایٹم بم گرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے یہ تمام ادارے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیے گئے تھے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ، " اسرائیل ویسی ہی غلطیاں نہ کریں جو ہم نے 9/11 میں کی تھیں۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمیں افغانستان میں جنگ میں پڑنا پڑا۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمیں اتنے سارے کام کرنے پڑے جو ہم نے کیے تھے۔"
- جنگ میں بے گناہ فلسطینیوں کو کچلا جارہا ہے: بائیڈن
اس کے علاوہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران، بائیڈن نے دوبارہ وہی عوامی تنقید پیش کرنے سے گریز کیا، لیکن کہا کہ انہوں نے اسرائیل پر واضح کر دیا ہے کہ "معصوم فلسطینیوں کی حفاظت اب بھی انتہائی تشویشناک ہے۔" بائیڈن نے کہا، "وہ جو اقدامات کر رہے ہیں وہ بے گناہ فلسطینی شہریوں کو زخمی ہونے، قتل کیے جانے، مارے جانے، گم ہونے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی کوشش کے مطابق ہونا چاہیے،" بائیڈن نے مزید کہا، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ "ہم یہاں کیا کر رہے ہیں۔ " بائیڈن نے کہا کہ "ہم یہاں اسرائیل کی حمایت کرنے کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ ایک آزاد ملک ہے اور جس طرح حماس نے اسرائیل کے ساتھ برتاؤ کیا وہ موازنہ سے باہر ہے۔"
- نتن یاہو کو اپنی حکومت بدلنی ہوگی:بائیڈن
بائیڈن نے کہا کہ، "اسرائیل کو ایک سخت فیصلہ کرنا ہے۔ بی بی کے پاس ایک مشکل فیصلہ ہے۔ حماس سے مقابلہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔ کوئی نہیں۔" بائیڈن نے کہا۔ لیکن انہوں نے اسرائیل کے رہنما کے بارے میں مزید کہا، "میرے خیال میں انہیں اپنی حکومت بدلنی ہوگی۔ اسرائیل میں ان کی حکومت اسے بہت مشکل بنا رہی ہے۔" بائیڈن کا اشارہ خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی پارٹی کے رہنما اور نتن یاہو کے حکومتی اتحاد میں قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر کی طرف تھا، جو دو ریاستی حل کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ اسرائیل سے مغربی کنارے پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بین گویر اسرائیل کی سیکورٹی کابینہ کا رکن ہے تاہم وہ اسرائیل کی تین افراد پر مشتمل جنگی کابینہ کا رکن نہیں ہے۔
- بائیڈن کے بیان پر اسرائیل کا رد عمل:
ان تبصروں پر اسرائیلی فوج اور حماس دونوں کی طرف سے ردعمل سامنے آیا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے کہا کہ " ہم انٹیلی جنس کی بنیاد پر درستگی کے ساتھ کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب ہم زمین پر کام کر رہے ہوں۔" "ہم جانتے ہیں کہ حماس کے مضبوط ٹھکانوں کے خلاف اس طرح آپریشن کرنا ہے کہ غیر ملوث شہریوں کو دہشت گردی کے اہداف سے بہترین طریقے سے الگ کیا جائے۔" فنڈ ریزر میں بائیڈن کے تبصرے سے پہلے، نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ امریکی حمایت کو سراہتے ہیں اور انہیں "زمینی کارروائی اور جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ کو روکنے کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہوئی ہے۔"
- بائیڈن کے بیان پر حماس کا رد عمل:
بائیڈن کے تبصروں کے بارے میں پوچھے جانے پر، حماس کے ایک سینیئر اہلکار نے بیروت میں کہا کہ "فلسطینی عوام کی مزاحمت اور ثابت قدمی نے بائیڈن کو سمجھا دیا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائی ایک پاگل پن ہے۔" حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اسامہ حمدان نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا، "(جنگ کے) اثرات اسرائیل اور انتخابات کے نتائج پر تباہ کن ہوں گے جن میں بائیڈن وائٹ ہاؤس میں اپنی نشست کھو سکتے ہیں۔"
- غزہ کے مستقبل سے متعلق اسرائیل کی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتا: بائیڈن
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ، "حماس کے بعد غزہ' میں کیا ہوگا اس ضمن میں اسرائیل سے اختلاف ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم یہاں بھی معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہوں گا: میں اسرائیل کو اوسلو کی غلطی دہرانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ غزہ نہ ہمستان ہوگا اور نہ ہی فتحستان۔" کسی بھی رہنما کے تبصرے سے پہلے وال اسٹریٹ جرنل کے زیر اہتمام ایک فورم میں خطاب کرتے ہوئے، سلیوان نے بائیڈن انتظامیہ کے موقف کا اعادہ کیا کہ، امریکہ، اسرائیل کو غزہ پر دوبارہ قبضہ یا اپنے پہلے سے چھوٹے علاقے کو مزید سکڑتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ امریکہ نے بارہا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی اور اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امن مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ سلیوان نے کہا کہ وہ نتن یاہو سے ان کے حالیہ تبصروں کے بارے میں بھی بات کریں گے جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کی دفاعی افواج جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ پر کھلے عام سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھیں گی۔ سلیوان نے کہا کہ، "مجھے وزیر اعظم نتن یاہو سے اس بارے میں بات کرنے کا موقع ملے گا کہ اس تبصرے کے ساتھ ان کے ذہن میں کیا ہے، کیونکہ اس کی کئی مختلف طریقوں سے تشریح کی جا سکتی ہے۔" "لیکن اس پر امریکہ کا موقف واضح ہے۔"
- امریکہ پر دباو کیسے بنا؟
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منگل کو ایک غیر پابند قرار داد پر ووٹ دیا جس میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا، جس کے کچھ دن بعد امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسی طرح کے اقدام کو ویٹو کیا تھا۔ برطانیہ اس 1-13 سے نامنظور ہوئی قرارداد میں برطانیہ نے حصہ نہیں لیا تھا، لیکن فرانس اور جاپان جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت کرنے والوں میں شامل تھے۔ بین الاقوامی ادارے کے چارٹر کی شرائط کے تحت صرف سلامتی کونسل کی قراردادیں قانونی طور پر پابند ہیں، لیکن منگل کو ہونے والی ووٹنگ نے ایک مضبوط پیغام دیا کہ دنیا بھر میں اس تنازعے کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جنوبی غزہ میں اسرائیل کے حملے تیز، غزہ کا انسانی نظام تباہی کے دہانے پر
یہ بھی پڑھیں:متعدد اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کرنے میں کامیابی حاصل کی :القدس بریگیڈز