قاہرہ: اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ نے اتوار کو کہا کہ سوڈان کی فوج اور ایک طاقتور نیم فوجی گروپ کے درمیان چھ ماہ کی جنگ میں 9,000 افراد ہلاکت کا شکار ہوئے ہیں اور حالیہ تاریخ میں بدترین انسانی بحران بن گیا ہے۔ فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کے کمانڈر جنرل محمد حمدان دگالو کے درمیان کھلی جنگ چھڑ جانے کے بعد سے سوڈان اپریل کے وسط سے افراتفری کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کے انڈر سکریٹری جنرل مارٹن گریفتھس نے جنگ کی چھ ماہ پورے ہونے کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ ’’چھ ماہ تک عام شہریوں کو خونریزی اور قتل وغارت گری سے کوئی مہلت نہیں ملی، اس دوران عصمت دری اور جنسی تشدد کی ہولناک رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں"۔ لڑائی کا مرکز ابتدائی طور پر خرطوم میں تھا۔ تاہم پہلے سے ہی تنازعات کا شکار مغربی دارفر کا علاقہ سمیت تیزی سے مشرقی افریقی ملک کے دیگر علاقوں میں پھیل گیا۔
گریفتھس نے کہا کہ لڑائی میں مبینہ طور پر 9,000 افراد ہلاکت کا شکار ہوئے اور لاکھوں افراد اپنے گھروں سے باہر یا سوڈان کے اندر یا پڑوسی ممالک میں محفوظ علاقوں میں جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنازع کی وجہ سے "کمیونٹیز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، کمزور لوگوں کو زندگی بچانے والی امداد تک رسائی نہیں ہوسکی ہے۔ پڑوسی ممالک میں انسانی ضروریات میں اضافہ ہوا ہے جہاں لاکھوں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں"۔
اقوام متحدہ مائگریشن ایجنسی کے مطابق سوڈان کے اندر 4.5 ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے، جب کہ 1.2 ملین سے زیادہ افراد پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ گریفتھس نے کہا کہ جنگ کے باعث ملک کی نصف آبادی سے زیادہ 25 ملین افراد انسانی امداد کی ضرورت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگی صورت حال کے دوران دارالحکومت اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہیضے کی وباء نے انسانی بحران میں مزید اضافہ کردیا۔
مزید پڑھیں: کینیا، جنوبی سوڈان نے سوڈان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا
فوج اور نیم فوجی گروپ کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے گریٹر خرطوم کا علاقہ، اور شمالی خرطوم سمیت دیگر علاقے میدان جنگ بن چکے ہیں، جہاں گنجان آباد علاقوں میں فضائی حملے اور گولہ باری ہو رہی ہے۔ خرطوم اور دارفور میں عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کی خبریں موصول ہوئیں ہیں، جن کا زیادہ تر الزام ریپڈ سپورٹ فورسز پر عائد کیا گیا۔
دارفور میں حالیہ مظالم کے باعث بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کو جولائی میں یہ اعلان کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ خطے میں تازہ ترین لڑائی میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کر رہا ہے۔