ایک لاکھ سے زیادہ کینیڈین سکھوں نے برامپٹن، اونٹاریو میں خالصتان ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ میں حصہ لیا، تاکہ خالصتان کی ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا جا سکے جس کا دارالحکومت شملہ ہو۔ خالصتان کے حامی ایڈووکیسی گروپ سکھس فار جسٹس (SFJ) کے زیر اہتمام، ووٹنگ کا آغاز گزشتہ روز ایک مذہبی رہنما بھائی دلجیت سنگھ سیکھون کی خصوصی دعا کے ساتھ ہوا، جو بھائی ہرجندر سنگھ پرہا کے قریبی ساتھی تھے جن کے نام پر ووٹنگ سینٹر وقف تھا۔ Khalistan referendum in Canada
سکھ فار جسٹس کے جنرل سکریٹری کا کہنا ہے کہ سکھ اپنے حق کے لیے جمہوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ ہمارا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، بھارتی حکومت نے خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ سے قبل کینیڈین حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کی کوشش تاہم کینیڈا میں خالصتان ریفرنڈم رکوانے کی بھارتی کوششیں اس وقت ناکام ہوگئی جب کینیڈا کی حکومت نے خالصتان ریفرنڈم کے خلاف کارروائی سے انکار کر دیا اور کہا کہ ریفرنڈم جمہوری حق ہے، جس سے سکھ کمیونٹی کو محروم نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں: Anti India Graffiti on Temple کینیڈا کی مندر میں بھارت مخالف تصاویر، بھارت کا سخت اعتراض
ایک ہندو مندر پر حملے اور خالصتان سکھ رہنما کے پوسٹر کے بعد صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے، کینیڈا کے ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ کینیڈین شہریوں کو آزادی اظہار کے حق سے متعلق ملکی قوانین کے تحت اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی اظہار اور اجتماع کا حق ہے۔
کینیڈا اب تقریباً دس لاکھ سکھوں کا گھر ہے جو خالصتانی تحریک کے ساتھ خود کو مضبوطی سے جوڑتے ہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے کئی سالوں سے بھارتی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے اور بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی دراڑیں پیدا کر دی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ خالصتان ریفرنڈم پر کینیڈا کے اپنے قوانین کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے قوانین کی حمایت حاصل ہے کہ تمام لوگوں کو پرامن طریقے سے حق خود ارادیت اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔