اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں عمران نے کہا کہ نیب حکام نے ان کے ساتھ "اچھا" سلوک کیا لیکن جلد بازی میں گرفتاری کے دوران ان کے سر پر چوٹ لگی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی سے بھی رابطہ نہیں کر پا رہے۔ سابق وزیراعظم نے بتایا کہ میں نے نیب ٹیم سے کہا کہ وہ مجھے بات کرنے دیں۔ انہوں نے مجھے لینڈ لائن پر بات کرنے دی۔
ملک میں پرتشدد مظاہروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "جو کچھ بھی ہوا اسے میں کیسے روک سکتا تھا؟ میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ گرفتاری کا ردعمل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جب مجھے حراست میں لیا گیا تو میں کیسے ذمہ دار ہو سکتا ہوں؟''۔ عمران نے مزید کہا کہ میں ہائی کورٹ میں بیٹھا تھا۔ ان کے پاس مجھے گرفتار کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ مجھے اغوا کر لیا گیا اور انہوں نے مجھے پہلی بار وارنٹ دکھایا جب وہ مجھے جیل لے گئے۔
انہوں نے کہا کہ جنگل کے قانون میں ایسا ہوتا ہے اور فوج اغوا کر لیتی ہے۔ پولیس کہاں گئی؟ کہاں گیا قانون؟ ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مارشل لاء کا اعلان ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل جب میں عدالت پہنچا تو مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ پُرتشدد مظاہروں میں 40 بے سہارا لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ میں اس کے بارے میں بھی نہیں جانتا تھا۔