کابل: طالبان حکام نے جمعرات کو کہا ہے کہ افغانستان میں سخت سردی کے دوران صرف ایک ہفتے کے دوران 78 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے ملک میں انسانی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کی وزارت کے طالبان کے ترجمان شفیع اللہ رحیمی نے کہا کہ یہ اموات 10 جنوری سے ہوئیں۔ رحیمی نے کہا کہ سردی کے نتیجے میں 75,000 سے زیادہ مویشی بھی مر چکے ہیں۔
کئی علاقوں میں پارہ منفی میں بھی انتہائی نچلے درجوں تک جا پہنچا ہے۔ وسطی صوبہ غور میں درجہ حرارت منفی 33 ڈگری تک گر گیا ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف ناکافی سہولیات اور نامناسب رہائش کے باعث لوگوں کا اس سردی میں زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ امدادی گروپوں کے مطابق اس وقت افغانستان کی لگ بھگ نصف آبادی بھوک کا شکار ہے جبکہ 40 لاکھ کے قریب بچے خوراک کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ افغانستان میں سرگرم بہت سی این جی اوز نے بھی اپنا کام اس لیے روک دیا تھا کہ طالبان نے خواتین کے ان گروپوں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔افغانستان کے دیہی علاقوں میں بے گھر افراد سردی سے بچنے کے لیے آگ کے الاؤ بھڑکا کر ان کے گرد جمع ہوتے ہیں جبکہ دارالحکومت کابل میں کوئلے کے ہیٹرز کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: NGOs Resume Work in Afghanistan افغانستان میں این جی اوز نے جزوی طور پر دوبارہ کام شروع کر دیا
محکمہ موسمیات کے سربراہ محمد نسیم مرادی کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اب تک سب سے زیادہ سردی پڑی ہے۔ وسطی اور شمالی صوبوں میں شدید برفباری کی وجہ سے سڑکیں بند ہیں۔ محکمہ موسمیات کے سربراہ نے مزید کہا کہ ’امکان ہے کہ شدید سردی کی یہ لہر مزید ایک یا دو ہفتے تک برقرار رہے گی۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور نے جمعرات کو کہا کہ افغانستان میں شدید سرد موسم نے مشرقی، مغربی اور شمالی علاقوں میں ہزاروں مویشی ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ (یو این آئی مشمولات کے ساتھ)