کابل: طالبان نے طالبات کو افغان دارالحکومت چھوڑ کر قزاقستان اور قطر میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع نے جمعہ کو بتایا کہ طلبہ و طالبات حصول علم کے لیے بڑی تعداد میں کابل چھوڑنے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن صرف طلبہ کو ہی تعلیم کے لیے افغانستان سے باہر جانے کی اجازت ہے۔ ستمبر 2021 میں ملک سے امریکی فوجیوں کے انخلا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان کی قیادت میں ایک عبوری افغان حکومت برسراقتدار آئی تھی۔ Taliban on Female Students
وہیں طالبان قطر دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے کہا ہے کہ امارت اسلامی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔ امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان میں لاکھوں بچیاں پرائمری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اعلیٰ تعلیم، عوامی صحت اور داخلہ کی وزارتوں میں خواتین کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیگر مسائل حل کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ افغانستان ایک اسلامی ملک ہے، خواتین کے حقوق کے معاملے میں افغانستان کا یورپی ممالک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امارت اسلامی دوحہ معاہدے کی پاسداری پر عمل پیرا ہے۔ کسی کو بھی افغان سرزمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ ہماری پالیسی ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھیں:
Taliban Closes Girls Schools after Reopening: طالبان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، ملالہ یوسفزئی
واضح رہے کہ طالبان نے افغان خواتین کے گھروں سے باہر کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اسکولوں میں صنفی بنیاد پر علیحدہ کلاس متعارف کرایا گیا ہے۔ لڑکیوں کو اب چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ مزید برآں، طالبان نے عوامی مقامات پر تمام خواتین کو اپنے چہرے ڈھانپنے پر مجبور کیا ہے اور خواتین کو مردوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور پارکوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضہ کرنے اور بنیادی حقوق خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو سختی سے محدود کرنے والی پالیسیاں نافذ کیں۔ طالبان کے حکم نامے خواتین کو سفر کرنے سے منع کرتے ہیں جب تک کہ ان کے ساتھ کوئی مرد رشتہ دار نہ ہو اور خواتین کے چہروں بشمول ٹی وی نیوز کاسٹرز کو عوام میں ڈھانپنے کے احکامات صادر کیے ہیں۔
حقوق کے متعدد گروپوں نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کریں اور اقدامات کریں۔ طالبان نے اس سے قبل افغانستان پر قبضے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران ایک جامع معاشرے اور مساوات کا وعدہ کیا تھا، تاہم ان کے اقدامات مختلف تصویر کی عکاسی کرتے ہیں۔ خواتین کی نقل و حرکت، تعلیم اور آزادی اظہار پر پابندیاں ان کی بقا کے لیے خطرہ ہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والی تقریباً 80 فیصد خواتین اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، اس نے مزید کہا کہ ملک میں تقریباً 18 ملین خواتین صحت، تعلیم اور سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
(یو این آئی مشمولات کے ساتھ)