انقرہ: ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے 14 دن بعد، بھی ریسکیو ٹیمیں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کر رہی ہیں۔ حکام کے مطابق زلزلے سے 46,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 84,000 سے زیادہ عمارتیں کو شدید نقصان پہنچا ہے جنہیں فوری طور پر مسمار کرنے کی ضرورت ہے، یا منہدم ہو گئی ہیں۔صرف ترکیہ میں زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 40,642 ہے جب کہ ہمسایہ ملک شام میں 5,800 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور یہ اعداد و شمار کئی دنوں سے تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔
ترک ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ پریذیڈنسی (AFAD) کا کہنا ہے کہ ترکیہ اور شام میں اس ماہ کے تباہ کن زلزلوں کے تقریباً دو ہفتے بعد بیشتر صوبوں میں تلاش اور بچاؤ کی کارروائیاں ختم ہو گئی ہیں۔ اے ایف اے ڈی کے سربراہ یونس سیزر نے ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 40,642 ہو گئی ہے اور ملبے تلے دبے لوگوں کی تلاش اور بچاؤ کا کام بیشتر صوبوں میں ختم ہو گیا ہے۔ سیزر نے مزید کہا کہ ہم شاید تاریخ کی سب سے بڑی تباہی کے سامنے ہیں۔ زلزلوں اور 5,700 آفٹر شاکس سے ہونے والے نقصانات، صرف متاثرہ 11 صوبوں تک ہی محدود نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
- Miracle Rescue in Turkey Quake ترکیہ میں ایک اور معجزہ، تیرہ دن بعد ملبے سے تین افراد کو زندہ نکالا گیا
- International Aid for Turkey ترکیہ نے مہاجرین پر بے پناہ سخاوت کا مظاہرہ کیا، اب زلزلہ سے متاثر ملک کی مدد کرنا ضروری: اقوام متحدہ
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ ترکیہ اور شام دونوں میں تقریباً 26 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ سرحد کے دونوں جانب نقصان بہت زیادہ ہے اور صحت کے حکام کئی متاثرہ کمیونٹیز میں صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان اور صاف پانی کی کمی کے نتیجے میں انفیکشن کے ممکنہ پھیلاؤ کے بارے میں فکر مند ہیں۔امدادی گروپوں کے ساتھ ساتھ ماہرین صحت نے متنبہ کیا ہے کہ زلزلوں سے ہونے والے نقصان سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
ترکیہ کی طرف بھی صحت کے متعلق خدشات ہیں، زمین پر موجود ڈاکٹروں نے صفائی، محفوظ پانی کی کمی اور پناہ گاہوں میں زیادہ ہجوم کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہ بیماری کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 6 فروری کو ترکیہ کے جنوب مشرقی اور ہمسایہ ملک شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا جس میں 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے جن کی باز آبادکاری کے لیے اربوں ڈالر کی اقتصادی لاگت متوقع ہے۔