سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پکسا نے جمعہ کو ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا ہے۔ شدید مالی بحران کا سامنا کرنے والے لوگوں نے جمعرات کو صدر کی نجی رہائش گاہ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی جس کے بعد بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے سے فوج کو لامحدود طاقت مل گئی ہے جس سے کسی بھی قسم کے پُرتشدد مظاہرے کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے گزٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ دراصل سری لنکا شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مظاہرین کی بڑی تعداد نے صدر گوتابایا راجا پکسا کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کر کے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ اس دوران مشتعل عوام نے کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ Sri Lanka President Declares Emergency
صدر کی رہائش گاہ کے قریب رکاوٹوں(بیریکیڈ) پر حملہ: ملک میں ایمرجنسی کے اعلان کے بعد فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے اور اب اسے بغیر وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر گوٹابایا نے کہا کہ یہ قدم اٹھانا ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوامی تحفظ، نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور ضروری خدمات کے ہموار آپریشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے گئے۔ اس فیصلے سے سکیورٹی فورسز کو پُرتشدد مظاہروں کو روکنے میں مدد ملے گی۔
حکومت نے پُرتشدد واقعے کو 'دہشت گردی کی کارروائی' قرار دیا: سری لنکائی حکومت نے صدر کی رہائش گاہ کے قریب ہونے والے پُرتشدد واقعے کو 'دہشت گردی کی کارروائی' قرار دیا ہے۔ سری لنکا کے کئی وزراء نے اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں اور ان سے وابستہ انتہا پسند عناصر کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس واقعے کو انٹیلی جنس کی ناکامی سمجھتے ہوئے ایک وزیر نے صدر کی جان کو خطرہ قرار دیا۔ اسی وقت، تمل نیشنل الائنس کے سری لنکا کے ایم پی شیواگنم سری دھرن نے الزام لگایا کہ حکومت تباہی آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اب راجا پکسے حکومت اپنی ناکامی کا الزام کووڈ 19 پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جمعرات کی رات دیر گئے لوگوں کی بڑی تعداد راجا پکسے کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئی اور صدر کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت مخالف نعرے لگائے۔ اطلاعات کے مطابق صورتحال کو سنبھالنے کے لیے آنسو گیس اور ہلکی طاقت کا استعمال کیا گیا۔ اس دوران کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
معاشی بحران کی وجہ سے عوام کا حکومت پر غصہ: لوگ سری لنکا میں بڑے معاشی بحران کا ذمہ دار حکومت کو سمجھتے ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معاشی نظام تباہ ہوا۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے لوگ جگہ جگہ حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ تاہم حکومت نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے اپوزیشن جماعتوں کی سازش قرار دیا۔ تجزیہ کاروں نے اس بحران کا ذمہ دار معیشت کی بدانتظامی کو قرار دیا ہے۔ یہ معاشی بحران کووڈ 19 کی وبا کے دوران شروع ہوا تھا۔ اس دوران صنعتیں اور کاروبار تباہ ہو گئے۔ سیاحت کا شعبہ ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت بدستور خراب ہوتی چلی گئی۔
مالی مجبوریوں اور مسائل سے دوچار ہیں لوگ: سری لنکا شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہ جزوی طور پر زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے ہے، جسے ایندھن کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گھنٹوں بجلی کی کتوتی، ایندھن، خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی سے لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا ہے۔ سری لنکا میں لوگوں کو روزانہ 10 سے 15 گھنٹے بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔ اس سے صنعتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ایندھن کی شدید قلت ہے۔ لوگوں کو ضروری ادویات نہیں مل رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث عوام کا جینا محال ہوگیا ہے۔